مہمان کالم
ٹوکیو کے نیشنل بینک میں پہلی سے دس تاریخ کے دوران بڑی تعداد میں پاکستانی شہری پاکستان میں مقیم اپنے اہل خانہ کو رقم بھجواتے ہیں، گزشتہ دنوں میں بھی کسی کام کے سلسلے میں بینک گیا، میری ملاقات جاپان میں گزشتہ بیس برسوں سے مقیم سینئر پاکستانی سمیر احمد سے ہوئی، سمیر نے مجھے بتایا کہ میں نے نیشنل بینک ٹوکیو میں اپنا اکائونٹ بند کرا دیا ہے، لاہور میں میرا کنبہ کافی بڑا ہے اور ہر ماہ مجھے تین سے چار لاکھ روپے پاکستان بھجوانا ہوتے ہیں، ماضی میں بڑی کوشش کی کہ پاکستان میں دو تین کروڑ روپے سے کوئی ایسا کاروبار سیٹ ہوجائے کہ ماہانہ تین سے چار لاکھ روپے کا نفع مل جائے اور گھر کے اخراجات پورے ہوجائیں لیکن کبھی کامیابی نہ ہوئی کیونکہ جس کے پاس کاروبار میں رقم لگائی اس نے ہی فراڈ کردیا اور رقم ڈبو دی ۔ لہٰذا کئی سال قبل فیصلہ کیا تھا کہ کوئی کاروبار نہیں کرنا گھریلو اخراجات کیلئے رقم جاپان سے بھیج دیا کروں گا ، لیکن چند ماہ قبل پاکستان گیا تو معلوم ہوا کہ پاکستان کے بینک عوام کو بائیس فیصد سالانہ نفع دینے لگے ہیں پہلے تو یقین ہی نہ آیا کہ جاپان میں بھی کبھی ایسا کوئی کاروبار نہیں دیکھا جس میں اتنا زیادہ نفع ہوتا ہو ، یعنی تقریباََ چار سال میں آپ کی رقم دگنی ہوسکتی ہو ، تاہم پاکستان جیسے غریب ملک کے بینکوں نے یہ مسئلہ حل کردیا تھا ، گھر میں والدین سے مشورہ کیا تو دونوں نے سود سے ملنے والی اس رقم کو لینے سے انکار کردیا ، تاہم میری اس پریشانی کا حل بھی بینک نے نکال دیا انھوںنے پاکستان کے ایک بہت بڑے عالم کافتویٰ دکھایا جس میں انھوں نے بینکوں میں رقم جمع کرانے کے بدلے ملنے والی ماہانہ رقم کو حلال قرار دے دیا تھا۔ میں نے والدین کو اس فتوے کی کاپی دکھاکر راضی کرلیا اور دو کروڑ روپے مذکورہ بینک میں فکسڈ کرادیئے جس سے مجھے تقریباََ پونے چار لاکھ روپے ماہانہ آمدنی کا آغاز ہوگیا جبکہ میری اصل رقم بھی محفوظ تھی ، سمیر بڑی خوشی سے مجھے اپنی ماہانہ آمدنی کی کہانی سنارہا تھا لیکن میں ا س پورے معاملے کو کسی اور زاویے سے دیکھ رہا تھا ، پاکستان میں حکومت نے سود کی شرح افسوسناک حد تک بڑھا دی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی بھی سود خور ہوگیا ہے کیونکہ پاکستان میں کاروبار کرنا اتنا مشکل کردیا گیا ہے کہ لوگ کاروبار کرنے سے زیادہ اب پیسہ بینکوں میں رکھ کر ماہانہ آمدنی کے حصول کو سہولت سمجھنے لگے ہیں ، عوام نے ماضی میں پراپرٹی ،تجارت ، انڈسٹری سے پیسہ نکال کر یا تو بینکوں میں جمع کرادیا یا سونے کی خریدو فروخت اور اسٹاک ایکسچینج میں لگا دیا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے جس سے معاشرے میں غربت میں مزیداضافہ ہورہا ہے ۔
حکومت کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنا ہونگے جس سے دولت چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے بلکہ حرکت میں رہے ، یہاں جاپان جیسے غیر مسلم ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں شرح سود عوام کیلئے صفر جبکہ بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کیلئے منفی ایک فیصد ہے ، یعنی اگر عوام بینکوں میں رقم رکھیں گے تو انھیں بینکوں کی جانب سے کوئی سود یا نفع نہیں ملے گا اور اگر بینک اپنی رقم اسٹیٹ بینک کے پاس رکھیں گے تو انھیں اسٹیٹ بینک کو رقم رکھوانے کا کرایہ ادا کرنا ہوگا ، حکومت کی اس پالیسی کا فائدہ یہ ہوا کہ جاپان میں کاروباری سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں ، عوام اپنی رقم بینکوں میں رکھنے کے بجائے کاروبار میں لگانا پسند کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی میں اضافہ ہوسکے جبکہ بینک کاروباری اداروں اور عوام کو ایک سے دو فیصد شرح سود پر لون دینے کے پابند ہیں جس سے کاروباری ادارے اپنے کاروبار کو بڑھانے کیلئے بڑی تعداد میں بینکوں اور مالیاتی اداروں سے لون حاصل کرتے ہیں تاکہ ان کے کاروبار میں اضافہ ہوسکے اور ایک سے دو فیصد لون ادا کرنے میں انھیں کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی کم شرح سود پر کاروبار کرنے سے بھی جاپان کے بینک ہمیشہ نفع میں رہتے ہیں کبھی نقصان ڈکلیئر نہیں کرتے ۔جاپان کا بینکنگ نظام دراصل اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے والے ہمارے پیارے ملک پاکستان کےلئے بہت بڑا سبق ہے کہ بغیر سود کے بھی معیشت ترقی کرسکتی ہے ،دولت کو چند ہاتھوں میں سمٹنے سے بچانےکےلئے بھی ہمارے دین میں تاکید کی گئی ہے جس کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے ۔اگر حکومت نے فوری طور پر سودی نظام کے خاتمے کیلئے مثبت اقدامات نہ کیے تو ہمارا پورا معاشرہ سود پسند اور سود خور ہو جائے گا، انھیں کاروبار سے زیادہ گھر بیٹھے نفع کمانے کی عادت لگ جائے گی اور ملک کا غریب مزید غریب ہوجائے گا اورمعیشت مزید تباہ ہو گی۔
واپس کریں