مہمان کالم
وہ فیصلہ جو 9مئی 2023ء کی شام 9 بجے کرنا تھا وہ فیصلہ یا ارادہ حکومت یا فیصلہ ساز اداروں نے 15 جولائی یعنی 18 ماہ بعد کیا ، 9 مئی کی دہشت گردی کے بعد دنیا حیران تھی کہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اندرونی دہشت گردی اور متعلقہ جماعت کے اسکی دوران حکومت اقدامات جس میں طالبان کو پاکستان میں داخلے کی اجازت ، سائیفر، IMFکو خط جس میں پاکستان کو ڈیفالٹ کرانے کیلئے سری لنکا جیسے حالات سے گزارنے کیلئے قرض نہ دینے کی درخواست ، بیرون ملک بیٹھے وہ سابق پاکستانی جو اب امریکی یا برطانوی پاسپورٹ رکھتے ہیں اور بھاری معاوضے کے تحت پروپگنڈہ مشینری کی خدمات حاصل کرنا جس نے سیاسی لوگوںکو کم عسکری اداروں ، اور شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی کی جو آج تک جاری ہے اب یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ تمام متعلقہ لوگ جو ملک میں امن اور ترقی چاہتے ہیں وہ شائد سو رہے تھے ، ISI جسکا دنیا کے اعلی ترین ادارے میں شمار ہوتا ہے اسے اسی طرح بدنام کیا اور کیا جارہا ہے جیسے بھارت کرتا ہے بھارت مطمین ہے کہ اسکا کام ہورہا ہے بھارت کے بعض رہنماء یہ کہتے ہیں کہ ہماری خواہشا ت پوری ہورہی ہیں ہمیں کسی اقدام کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ 18 ماہ کے اس عرصے میں ان اداروں کے لوگ جہاں لوگ انصاف کیلئے جاتے ہیں وہ بھی تقسیم ہوچکے ہیں، اعلی عدالت میں بیٹھ کر اگر کوئی معزز جج یہ کہے گا کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کو انتخابات سے دور رکھا گیا ، توGOOD TO SEE YOU اور اس جملے میں کی فرق ہے ؟؟ عدلیہ تو کسی رہنماء کو پھانسی دیکر بھی اسکا اظہار کردیتی ہے کہ ہم سے غلطی ہوگئی 9مئی کی شام کو کئے جانے والے اقدام کو 18 ماہ بعد کرنے کو یہ ہی کہاجاسکتا ہے کہ اب تاخیر ہوچکی ہے۔ جنکے خلاف واضح ثبوت تھے ، تصاویر ، ریکارڈنگ ، ویڈیو موجود تھیں انہیں ’’ باعزت ‘‘بری کردیا گیا ہے۔
عوام کنفیوز ہوچکے ہیں کہ کون غلط کون محب وطن ؟؟ ہم سب ہی اسکے ذمہ دار ہیں کہ جمہوریت کا نام لیکر تمام تر حدیں پار کرتے ہوئے جمہوریت کو مذاق بنا دیا گیاآنے والی نسلیں جب ہماری تاریخ پڑھینگی انکی زبان پر وہی الفاظ ہونگے جو پی ٹی آئی نے ہمارے سماج اور معاشرے کو متعارف کرادئے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کسی بھی جماعت پر پابندی ٹھیک نہیں مگر کیا ملک کو تباہ ہونے دیا جائے؟؟ دہشت گردی پر آنکھیں اور کان بند کرلئے جائیں ؟؟اور جماعتوں پر پابندی لگنا کوئی نئی بات نہیں مگر ہمارے ہاں مسئلہ JUSTICE DELAYED JUSTICE DEINEDوالا معاملہ ہے۔ قانون کی تشریح کرنیوالے ادارے قانون کی تشریح نہیں کررہے بلکہ اپنا آئین بنارہے ہیں ورنہ نشستوں کے معاملے شکائت کنندہ اور جس کی کوئی شکائت ہی نہ ہو اسے نشستیں دے دی جائیں ، جنکے خلاف مضبوط ثبوت ہوں وہ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے بری کردئے جائیں تو غیر جانبدار اور آئین کے مطابق فیصلوں نہ ہوں تو خیال آنا لازمی عنصر ہے کہ یہ کچھ اورہورہا ہے معتبر ادارے ہی جب ایک دوسرے سے شاکی ہوجائیں تو ملک کو نقصان تو لازمی ہے۔ عدالتی فیصلوں کے بارے میں غالب امید یہی ہوتی ہے کہ عدالت مقدمہ میں دلائل سن کر ہمیشہ یہ دیکھتی ہے کہ کونسا فریق حق اور سچ پر ہے اور انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی فریق کے حق میں فیصلہ دیتی ہے۔ کیونکہ معزز جج صاحبان بھی انسان ہیں اور ایک دن انہوں نے بھی خود سب سے بڑی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں ایک ایک ذرے کا حساب دینا ہو گا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انصاف اس کو دیا گیا جس نے نہ یہ انصاف مانگا تھا نہ وہ فریق تھا نہ اس کا وکیل تھا۔ مقدمہ تو کوئی اور لے کر عدالت میں گیا اور اس فریق کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے، دلائل دئیے اور انصاف کا تقاضا و درخواست کی لیکن اس کی درخواست کو مسترد کیا گیا اس فریق کا مقدمہ خارج کیا گیا اور ایک غیر متعلقہ کو فریق بنا کر اس کے حق میں نہ صرف فیصلہ دیا گیا بلکہ وہ سب کچھ دیا گیا جو اس نے مانگا تھا نہ اس کو امید تھی اسلئے وہ بھی اس بن مانگے عطا پر خود بھی حیران ہے جسطرح جب تحریک انصاف کو ’’ آشیر باد ‘‘ تھی تو اس وقت کا قصہ ہے کہ بانی 408 کو بھی علم نہیں تھا کہ کون کون کامیاب کردیا گیا ہے تحریک انصاف کے آشیربادی اراکین اپنا تعارف کراتے تھے کہ ’’میں کامیاب ہوگیا ‘‘ بانی کہتے تھے ’’تم بھی ‘‘۔ یہ ایک ایسا عجیب فیصلہ ہے۔ کسطرح کوئی ارادہ یا کوئی شخص ہدایات دے سکتا ہے کہ فلاں اراکین فلاں جماعت میں شامل ہوجائیں ایک طرف تو ملک میں استحکام اور امن و سکون کیلئے ’’عزم استحکام‘‘ پر کام ہو رہا ہے لیکن دوسری طرف اس فیصلے سے عدم استحکام کا خدشہ ہے۔
یہاں ایک اور سوال یہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں پی ٹی آئی کا کوئی دعوی ہی نہیں تھا۔ سنی اتحاد کونسل وہاں بھی فریق تھی۔ سنی اتحاد کونسل کے آئین میں غیر مسلم کوورکر تسلیم نہیں کرتے۔ نہ پشاور ہائی کورٹ کی اپیل میں پی ٹی آئی فریق تھی نہ ہی سپریم کورٹ میں۔ اس عدالتی فیصلے سے لگتا ہے کہ آئین کی متعلقہ شقوں کو دوبارہ لکھا گیا ہے۔ چونکہ اس فیصلے سے بعض سوالات نے جنم لیا ہے دوسری طرف بیرونی سرمایہ کاری کو بھی دھچکا لگے گا۔ شاید کچھ لوگ چاہتے بھی یہی ہیں وہ پہلے بھی سمندر پارپاکستانیوں کو کہہ چکے ہیں رقم بنک کے ذریعے نہ بھیجو، بجلی کے بل پھاڑ دو وغیرہ وغیرہ ،پاکستان کی مخدوش صورتحال جسے درست کرنے کیلئے حکومت کوشاں ہے اور سرمایہ کاروںکو دعوت دی جارہی ہے ایسے حالات میں یہاں کون آکر سرمایہ کاری کرے گا؟ اگر کوئی ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے اور انار کی پھیلانے کی کوشش کریگا تو کیسے برداشت کیاجا سکتا ہے۔ قوم خود فیصلہ کرے کہ ملک کے خیر خواہ کون ہیں اور بدخواہ کون ہیں۔
اگر حکومت کے تمام ادارے جنکی ذمہ داری ہے کہ بیرون ملک اور اندرون ملک عوام کو صحیح بات بتائے ’’ بونگیاں ‘‘ نہ مارے تاحال ان معاملات پر حکومت کے وزراء ’’بونگیاں ‘‘ ہی مارتے سنے جارہے ہیں اگر تندہی سے کام کیا جائے تو بیرون ملک بالخصوص امریکہ میں کچھ لوگوں کے لاکھوں ڈالرز بھی ڈوب جاینگے جو وہ پاکستان اور پاک فوج کو بدنام کرنے کے لئے خرچ کر چکے ہیں۔ پاکستان اور پاک فوج کو بدنام کرنے کی ہرکوشش چاند کی طرف تھوکنے کے مترادف ہے کہ تھوکنے والا چاند کا تو کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتا الٹا اپنا منہ گندا کر لیتا ہے۔ پاکستان عوام پہلے ہی مہنگائی ، بے روزگاری ، بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے بلیڈ پریشر اور شوگر کا شکار ہیں یقینا وہ اسکی بات سنیں گے جو کہے گا حکومت نااہل ہے۔ عوام کو سہولیات ملینگی گو کسی جماعت پرپابندی کی ضرورت نہیں پڑے گی عوام خود ہی اس متنفر ہوجائینگے۔ وزار ت خارجہ کہ سہل پسندی کی وجہ سے بیرون ملک نام نہا د انسانی حقوق کے دعوے داروں نے بھی شور و غوغا شروع کردیاہے۔ جب دہشت گردی کے الزام کا قیدی 804جیل سے روزآنہ پریس کانفرنس کرتاہے ہے اپنی جماعت کے اجلاس کرتا ہے توپھر اسے لاڈلا ہی کہا جاسکتا ہے۔
واپس کریں