سہیل وڑائچ
خوشی کی بات ہے کہ ماضی کے بہت سے سیاسی گناہ گار جمہوریت پسندی کا راگ الاپ رہے ہیں، وہ جنہوں نے اپنے ذاتی اور وقتی فائدوں کیلئے ملک کے جمہوری نظام کو اس حال میں پہنچایا ہے وہ جمہوریت کا چولا پہن کر بھاشن دے رہے ہیں۔ جمہوریت کا دامن بہت وسیع ہے ماضی کے سیاسی گناہ گاروں کیلئے دروازے کھلے ہیں کہ وہ بھی جمہوری میدان میں آ کر کھڑے ہو جائیں مگر اس کیلئے پہلی شرط ماضی کے غیر جمہوری گناہوں سے سرِعام توبہ کرنا ہے۔
اگر یہ واقعی اب جمہوری ہوگئے ہیں تو یہ کم از کم قیمت ہے جو انہیں ادا کرنی چاہیے مگر افسوس کہ جمہوریت کے یہ نئے سپاہی نہ ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگتے ہیں نہ توبہ کرتے ہیں اور پھر توقع کرتے ہیں کہ انہیں فوراً ہی جمہوریت کا لیڈر مان لیا جائے۔ تاہم تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہے نہ اب ہوگا۔
آج کل روایت چل نکلی ہے کہ مارشل لاؤں کی چھتری میں وزارتیں لینے والے ہوں یا گیٹ نمبر4 سے سیاست میں داخل ہونے والے ہوں، اپنے آپ کو جی ایچ کیو کے نمائندے کہنے والے ہوں یا ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا انتظار والے ہوں، اپنے تئیں جمہوریت کے سب سے بڑے چیمپئن اور مقتدرہ کے مخالف بنے ہوئے ہیں اپنے ماضی کو دیکھتے نہیں اور بھیس بدل کر جمہوری رنگ اختیار کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ انکی دِلی کمٹ منٹ نہیں صرف ذاتی اور وقتی فائدے کیلئے وہ ایسا کر رہے ہیں جب تک وہ سرعام توبہ کر کے دوبارہ سے ماضی کا رویہ نہ دھرانے کا اعلان نہیں کرتے کوئی ان پر کیسے یقین کرے؟
جمہوریت کے ان نئے حامیوں میں تازہ ترین اضافہ شیخ رشید کا ہے وہ میرے پسندیدہ بھی ہیں اور متنازع ترین بھی۔ مجھے ان کی عوامی سیاست پسند ہے مگر ان کی زبان اور مقتدرہ سے لائن لینا ناپسند رہا ہے۔
شیخ رشید ماضی میں فخریہ خود کو جی ایچ کیو کا نمائندہ کہتے رہے ہیں، جنرل ضیا الحق کا مارشل لا ہو یا جنرل مشرف کا مارشل لا وہ ہر دور میں ان کی ترجمانی کرتے رہے، جمہوری لیڈروں کو مقتدرہ کے کہنے پر طنز و تشنیع کا نشانہ بناتے رہے بلکہ ان کی توہین کرتے رہے۔
ایک چلہ لگا ہے تو ان کی آنکھیں کھل گئی ہیں، وہ جو ہزاروں کوڑے کھاتے رہے، جیلیں بھگتتے رہے، شیخ صاحب اس وقت آمروں کا راگ الاپتے رہے۔ آج اگر انہیں ماضی پرشرمندگی ہے تو پہلے توبہ کا اعلان کریں پھر جمہوری قبا ضرور پہنیں۔
یہی کچھ محمد زبیر اور اسد عمر صاحبان کا معاملہ ہے انکے والد جنرل غلام عمر، جنرل یحییٰ کے مشیر کی حیثیت سے عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ روکنے کی سازش میں شریک تھے، کیا انہیں نہیں چاہیے کہ وہ سرعام والد کے اس کردار پر معافی مانگیں اسکے بعد ہی انہیں جمہوریت کی سیاست میں خوش آمدید کہا جائیگا۔
سیاست کے شہنشاہ مولانا فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد دونوں بڑے قابل احترام سہی مگر ایل ایف او پر دستخط کرنا انکے جمہوری کھاتے پر ایک سیاہ داغ ہے انہیں موقع ملتے ہی اس گناہ کا کفارہ ادا کرنا چاہیے اور توبہ کا اعلان بھی کرنا چاہیے تبھی ان کی مقتدرہ کیخلاف آواز پُر اثر ہو سکے گی۔
آج کے مقبول ترین بیانیے کے لیڈر عمران خان بھی ماضی میں اس گناہ میں شریک رہے ہیں مقتدرہ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے، ان کے ساتھ مل کر دھرنے دینے اور ان کی تعریفیں کرنے پر ان کی توبہ بھی بنتی ہے، میڈیا اور اپوزیشن کے ساتھ مقتدرہ کی مدد سے حملے پر بھی انہیں رجوع کرنا چاہیے وہ جب تک یہ نہیں کرتے کون یقین کرے گا کہ انہیں موقع ملا تو وہ پھر سے وہی نہیں کریں گے۔
نواز شریف جنرل ضیا الحق کے دور میں ہی سیاست میں آئے اور ان کے پُرزور حامی رہے انہیں بھی پہلی فرصت میں جنرل ضیا کی کوڑوں، جیلوں اور پھانسیوں کی سزائیں دینے والی حکومت میں شریک رہنے پر توبہ کرنی چاہیے۔
چودھری پرویز الٰہی جیل کاٹ کر ’’پاک صاف‘‘ ہو گئے ہیں لیکن جنرل مشرف کے دور میں مقتدرہ کے اشارے پر ق لیگ بنانے اور جنرل ضیا کے دور میں انکی حمایت انکے غیر جمہوری رویوں کا ثبوت ہے اگر اصلی اور نسلی جمہوری ہونا ہے تو وہ بھی ماضی کے ان گناہوں سے توبہ کریں۔
توبہ کی اس شرط کا اطلاق صرف سیاست دانوں پر نہیں بلکہ ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹوں اور حتیٰ کہ ان عام لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو ماضی میں مارشل لاؤں کو اچھا سمجھتے رہے ہیں، انکی حمایت کرتے رہے ہیں یا ان کے ممد و معاون رہے ہیں۔ اگر تو یہ واقعی دل سے جمہوری ہوگئے ہیں تو ان کیلئے کم از کم شرط ماضی کے رویوں پر معافی اور توبہ ہے جو لوگ ماضی کے ان گناہوں کی توجیہ بیان کرتے ہیں وہ دراصل اپنے اس غیر جمہوری گناہ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ناقابل قبول ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ آج اشوکا کا دور نہیں کہ ماضی کا ظالم ترین حاکم بدلے تو اسے رحمدل ترین بادشاہ کے نام سے یاد رکھا جائے۔ آج کے میڈیا دور میں ماضی کی غلطیاں اور گناہ نہ کسی کو بھولتے ہیں نہ انہیں مٹانا آسان ہے مگر چونکہ جمہوریت کا دامن وسیع ہے اور اس میں ہر کسی کی ہر وقت شمولیت کے مواقع موجود ہیں، اس لئے نئے جمہوریت پسندوں سے گزارش ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اس قافلے میں شامل ہوں، یہ نہ ہو کہ آج کے جن حالات سے گھبرا کر وہ ’’مسلمان‘‘ ہو رہے ہیں، کل حالات بدل جائیں تو انہیں پھر ’’کافر‘‘ ہونا پڑ جائے۔
جمہوریت پسندی میں مشکلات ہیں، برداشت ہے، تحمل ہے اور مقتدرہ کے حامیوں کے پتھر ہیں، غداری کے طعنے ہیں، کفر کے فتوے ہیں، حالات بدلتے دیر نہیں لگتی، نئے جمہوریت پسند سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں!!!۔
واپس کریں