سہیل وڑائچ
بنوں ہو یا بنگلہ دیش، سوات ہو یاسیالکوٹ۔ دنیا میں ہر طرف ہجوم کی حکمرانی نظر آ رہی ہے ۔پہلے ہجوم لیڈر کےپیچھے چلا کرتا تھا اب لیڈر ہجوم کی خوشنودی دیکھ کر چلتے ہیں، پہلے ویژنری لیڈر ہجوم کو ویژن اور نظریہ دیا کرتے تھے اب ہجوم لیڈر کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ، وہ کہے اور وہ کرے جو ہجوم چاہتا ہے۔ ماضی میں بڑے لیڈر ہجوم کو اپنے اشاروں اور احکامات پر چلایا کرتےتھے اب لیڈر ہجوم کے اشاروں کنایوں سے ہدایت لیتے ہیں۔ جب ہجوم حکمران ہو جائیں اور لیڈر مجبور تو وہ زمانہ انارکی کا ہوتا ہے۔ تمام دنیا بالعموم اورتضادستان بالخصوص اس طرح کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔
ہجوم کی حکمرانی اور ہجوم کی مخصوص نفسیات کے حوالے سے ولیم شیکسپیئر نے اپنے شہرہ آفاق سیاسی ڈرامے ’’جولیس سیزر‘‘ میں جو نقشہ کھینچا ہے اس سے ہجوم کےبدلتے مزاج، ہوش کی بجائے جوش ، عقل کی بجائے غصے اور تعمیر کی بجائےتخریب سے کام لینے جیسے عوامل کی نشاندہی ہوتی ہے۔ خودغرض لیڈر ہجوم کی نفسیات سے کیسے کھیلتا ہے اور پھر ہجوم کس طرح تشدد پر آمادہ ہو تا ہے یہ ساری کہانی جولیس سیزر کے مکالموں میں موجودہے۔ محترمہ بے نظیربھٹو کو یہ ڈرامہ اس قدر پسندتھا کہ انہیںاس ڈرامے کے اکثر مکالمے زبانی یاد تھے اور جب کبھی ان سے ادب پر گفتگو ہوتی تو وہ ان مکالموں میں چھپے ضرب المثل مقولوں کو دہرایا کرتی تھیں۔ اس ڈرامے کے مطابق جولیس سیزر کو بروٹس اور اس کےسازشی ساتھی سینٹ کی سیڑھیوں میں قتل کردیتے ہیں ،اس قتل کے بعد سیزر کے پرانے دوست بروٹس کو ہجوم کا سامنا کرتے ہوئے اپنے دوست سیزر کے قتل کا جواز پیش کرنا پڑتا ہے، ہجوم کی نفسیات سے کھیلتے ہوئے بروٹس کہتا ہے کہ ’’یہ نہیں کہ میں سیزر سے کم محبت کرتا تھا لیکن میں روم سے اس سے کہیں زیادہ محبت کرتا ہوں‘‘۔ بروٹس نے گویا یہ کہا کہ میں نے سیزر کو اس لئے قتل کیا کہ اس کے عزائم روم اور حب الوطنی کے خلاف تھے۔ ذرا غور کریں کہ تضادستان میں جب بھی کوئی غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر عوامی قدم اٹھایا گیا یہی کہا گیا کہ اس میں ’’قومی مفاد‘‘ ہے۔ ہر مارشل لا، ہر نظریہ ضرورت، ہر غلط قانون، ہر سیاسی جیل، نظر بندی، پھانسیاں، کوڑے اور پابندیاں قومی مفاد کے نام پرہی جواز پاتی رہیں۔ شیکسپیئربے عقل اور ہوش سے عاری ہجوم کے بار ےمیں آگے بیان کرتا ہے کہ بروٹس کی تقریر پر ہجوم نے سیزر کے قتل کے جواز کو قبول کرلیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مارک انٹونی کو بھی اسی ہجوم سے خطاب کا موقع ملا تو اس نے ہجوم سے کہا ،کل تک تو آپ سیزر سے محبت کرتے تھے اب اس محبت کو کیا ہوگیا؟ انٹونی نے کہا بروٹس غلط کہتا ہے سیزر تو عوام کا اصل خیر خواہ اور محبِ وطن تھا ،وہ فاتح تھا مگر بادشاہ بننے سے انکاری تھا ۔ انٹونی کی جذباتی تقریر کےبعد وہی ہجوم جو تھوڑی دیر پہلے بروٹس کوسیزر کے قتل پر معاف کرکے اس کاساتھی بن چکاتھا، بروٹس اور اس کےقاتل ساتھیوں کو غدار قرار دیتے ہوئے انتقام کے نعرے لگانے لگتا ہے۔ وہ لوگ بروٹس کا گھر جلانے اور قاتلوں کو چن چن کر مارنے کا ارادہ ظاہر کرنےلگتے ہیں۔ ہجوم کے جذبات میں کس طرح تبدیلی آتی ہے اور کس طرح ہجوم کے جذبات کوبھڑکایا جاسکتا ہے شیکسپیئر نے ان مثالوں سے ان کو واضح کیا ہے۔ ایک سائیڈ سٹوری کے طور پر ’’جولیس سیزر‘‘ میں ہی، اسی پُرجوش اور انتقامی ہجوم کا سامنا سینا CINNA نامی ایک رومن شاعر سے ہو جاتا ہے ہجوم اس کو پکڑ لیتا ہے۔ بے چارہ شاعر کہتا ہے کہ میں تو سینا شاعر ہوں، سینا سازشی ایک اور شخص ہے لیکن ہجوم اندھا اور بہرہ ہے وہ دلیل اور عقل کی بات کب سنتا ہے حالانکہ سیزر کے قتل کا سازشی سینا مختلف شخص تھا اور یہ سینا شاعر اس کا صرف ہم نام تھا۔ سینا ہجوم سے کہتا ہے I AM CINNA THE POET تو ہجوم میں سے ایک جواب دیتا ہے TEAR HIM FOR HIS BAD VERSES’’اسے اسکے غلط اشعار کی وجہ سے مار دو‘‘۔
تضادستان میں بھی ہجوم کی نفسیات چھائی ہوئی ہے اس نفسیات کا اگر تخلیقی اقلیت (CREATIVE MINORITY)نے سیاسی اور سماجی علاج نہ کیا تو اس سے انارکی پھیلے گی جولیس سیزر کے مختلف کردار انارکی اور افراتفری کی پیش گوئیاں کرتے نظر آتے ہیں، تضادستان میں بھی یہی حالات اور یہی سوچ کارفرما نظر آتی ہے۔
تضادستان میں آج کل ہر طرف افواہوں کا بازا ر گرم ہے، فیک نیوز کو ہرکوئی سچ بنا کرپیش کر رہا ہے ’’جولیس سیزر‘‘ میں شیکسپیئربار بار یہ سمجھاتا نظر آتا ہے ’’ظلم کا خوف انارکی کو جنم دیتا ہے‘‘اور اس ڈرامے کے مطابق مارک انٹونی کی جذباتی تقریر نے روم کے گلیوں، بازاروں میں انارکی پیدا کردی بالکل اسی طرح جیسے کبھی آزاد کشمیر، کبھی بنوں اور کبھی ڈھاکہ میں ،وہی کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ہر جگہ انٹونی کی طرح کی جذباتی تقریر یا جوشیلے جذبات پھوٹ پڑتے ہیں۔ عقل اور ہوش جاتا رہتا ہے۔ علم نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائڈ نے ہجوم کی نفسیات کے بارے میں کہا تھا فرد کی نفسیات ہجوم کی نفسیات سے مختلف ہوتی ہے جب کوئی فرد ہجوم میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں پھر وہ قتل بھی کرسکتا ہے، بستی کو آگ لگاسکتا ہے، خون بہا سکتا ہے۔ سیالکوٹ، سوات، بنوں اور جہاں جہاں ہنگامے پھوٹے ہیں اور تخریب کاری ہو ئی ہے وہاں یہی ہجوم کی نفسیات ہی کارفرما رہی وگرنہ اس ہجوم کے ہرفرد کو الگ الگ دیکھا جائے تو ان میںسے کوئی بھی انفرادی طور پر اتنا جذباتی ، جارحانہ اور پُرتشدد رنگ اختیار نہ کرے۔
ہجوم کی نفسیات عام ہو جائے تو امن ناپید ہو جاتا ہے۔ ہجوم کے جذباتی پن کے پیچھے کسی نہ کسی ظلم، زیادتی یاتشدد کا پس منظر ہوتا ہے جیسے شیکسپیئر کے ڈرامے میں جولیس سیزر کا سرعام قتل تھا۔ اصل مسئلہ اِس وقت یہ ہے کہ ہجوم کی نفسیات کو تبدیل کیسے کیا جائے؟، جذبات کیسےٹھنڈے ہوں؟ انتقام اور دشمنی کو دفن کیسے کیا جائے؟ میری طالب علمانہ رائے میں اس کا واحد حل آئین اور قانون کے راستے پر چلتے ہوئے انصاف کا بول بالا کرنا ہے، جتنی جلدی انصاف اور قانون کی عملداری ہوگی اتنی ہی جلدی ہجوم کو چین آتا جائے گا۔ دوسری طرف ہجوم کو اُکسانے والوں سے عرض ہے کہ روم کا ہجوم انارکی تو لے آیالیکن اُسے نہ امن ملا اور نہ اقتدار۔ تضادستان میں بھی ہجوم ریاست اور معیشت کو غیر مستحکم تو کرے گا لیکن تختہ الٹ کر اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو نہیں لا سکے گا۔ اکثر انقلابوں کے نتیجے وہ نہیں نکلے جو ہجوم چاہتے تھے۔ ایرانی انقلاب میں بایاں بازو پیش پیش تھا لیکن منزل مذہبی طبقات کو ملی اور بائیں بازو کو تو ایران میں جائے پناہ تک نہ ملی۔ اب بھی اگر ہجوم کو لیڈر خان نے نہ سنبھالا اور وہ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کےکمائو پوتوںکے پیچھے چلتا رہا تو یہ ہجوم اُسے پتہ نہیں کہاں لے جائے گا۔ ہجوم کو اقتدار کا راستہ نہیں آتا اس کی واحد اور آخری منزل انارکی ہی ہوتی ہے۔ لیڈر خان کو ہجوم کی سننے کی بجائے اپنی سنانے کا راستہ اپنانا ہوگا۔
واپس کریں