سہیل وڑائچ
یہ مرچوں کا اثر ہے، ہمارا ڈی این اے مختلف ہے یا پھر ہمارا خون کچھ زیادہ ہی کھولتا ہے۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہیں کچھ غلط ہو جائے تو ایک دوسرے کو سوری کہہ کر غلطی کوبھول جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ ہر وقت ناک بھوں چڑھائے رہتے ہیں، ہلکی سی بات ہو جائے تو ہم آستینیں چڑھا لیتے ہیں، ہماری آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، منہ سے مغلظات نکلنا شروع ہو جاتی ہیں اور ہم ہاتھا پائی اور لڑائی مارکٹائی پر اتر آتے ہیں۔ ہم خوشی بھی منا رہے ہوں تو اس میں فائرنگ کرکےیا میوزک شو کے دوران لڑ کر ماحول کو افسردہ کرنے کے ماہر ہیں۔ غم، دکھ اور تکلیف کو منانے کیلئے ہمارے پاس سو سو رسومات ہیں مگر عید، شب برات کے دن ہمارے پاس سونے اور کھانے کے علاوہ کوئی مشغلہ نہیں۔ ہمارا غصہ اور ہماری لڑائیاں گھروںسے لیکر دفتروں، اداروں اور سیاست تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ہم جس قدر غصہ کرنے والے اور لڑنے کے ماہرہیں اسی قدر صلح کرنے اور معاملات کو نمٹانے میں نااہل ہیں۔ ہمارے ہاں کاروباری شراکت داریاں نہیں چل پاتیں، دفتروں میں ایک دوسرے کیخلاف سیاست بازی ہوتی ہے، گھر میں ساس بہو کی لڑائی صدیوں سے طے نہیں ہوسکی جبکہ مغربی دنیا نے ان تمام معاملات کے صحیح یا غلط حل نکال ڈالے ہیں جبکہ ہمارے ہاں بہن بھائی کی لڑائی ہو جائے تو آپس میں صلح نہیں ہوتی، شراکت دار برسوں مقدمہ بازی کرتے ہیں مگر بیٹھ کر معاملات حل نہیں کرتے، ہم اکیلے اکیلے بہت کامیاب ہیں لیکن جہاں گروپ میں کام کرناپڑے ہم ناکام ہو جاتے ہیں، خاندانی دشمنیاں برسوں چلتی ہیں، درجنوں افراد اس خونیں دشمنی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، دونوں فریقوں کا نقصان ہو رہا ہوتا ہے مگر وہ امن اور صلح کیلئے تیار نہیں ہوتے۔
تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے لوگوں کا یہ دائمی مرض ہے کہ انہیں لڑنے کے آداب تو آتے ہیں مگر CONFLICT RESOLUTIONیعنی تنازعات کا حل انہیں نہیں آتا۔ مغل ہر دفعہ جانشینی پر جنگیں لڑتے تھے جبکہ برطانوی شاہی خاندان نے طے کرلیا تھا کہ سب سے بڑی اولاد چاہے بیٹی ہو یا بیٹا وہی جانشین ہوگا۔ ہم کبھی صلح صفائی کے اصول طے نہ کرسکے۔ انگریزوں نے ہندوستان کو اپنی کالونی بنایا تو نہ مسلمانوں اور نہ ہی ہندوئوں کے پاس کوئی فارمولا تھا کہ آزادی کیسے ملے، ہندو مسلم تنازع کیسے حل ہو۔ میری ناقص رائے میں گاندھی اور نہرو اور ہم مسلمانوں میں سے اقبال اور جناح اگر یورپ جا کر تعلیم حاصل نہ کرتے تو ہم آج بھی غلام ہوتے ان چاروں نے یورپ سے CONFLICT RESOLUTIONیعنی تنازعات کا حل سیکھا۔ جو گاندھی اور نہرو چاہتے تھے یعنی پورے ہندوستان پر کانگریس کی حکومت، وہ انہیں نہ مل سکا۔اسی طرح جو قائد اعظم چاہتے تھے انہیں وہ نہ مل سکا اور بقول ان کے انہیں کٹے پھٹے پاکستان پر اکتفا کرنا پڑا۔ تنازعات کا حل ایسے ہی ہوتا ہے کسی بھی فریق کو اسکی خواہش کے مطابق سب کچھ نہیں ملتا۔ صلح ہوتی ہی تب ہے جب آپ اپنے مطالبات سے کم پر راضی ہو جائیں۔ یہی چیز ہم برصغیر کے لوگوں کو نہیں آتی، اسی لئے پاک بھارت تنازع حل نہیں ہوپاتاکیونکہ دونوں فریق اپنی خواہشات کے مطابق معاملات کا حل چاہتے ہیں جو دوسرے فریق کیلئے قابل قبول نہیں۔ سرِ دست برصغیر کو سب سے زیادہ ضرورت ایسے اشخاص کی ہے جو تنازعات کا حل جانتے ہوں، ہمیں نئے گاندھی اور نئے جناح کی ضرورت ہے۔ مگر افسوس کہ ایک طرف ضدی مود ی ہے اور دوسری طرف ہم بھی اسی کے بھائی بند۔ جب تک لچک پیدا نہ ہو مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
آج کی پاکستانی سیاست بھی اسی لڑائی جھگڑے اور غصے میں گھری ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مکمل سیاسی ڈیڈ لاک ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی ہے جو 9مئی کے واقعے پر معافی مانگنے اور اس سےبرات کا اعلان کرنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف مقتدرہ ہے جو 9مئی کے زخم بھلانے کو تیار نہیں۔ اگر دونوں فریقوں میں لچک نہیں ہے تو ظاہر ہے ڈیڈ لاک بڑھتا رہیگا۔ میری ذاتی رائے تو شروع سے یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو تشدد کی سیاست کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور اگر اس حوالے سے کوئی غلطی ہو جائے تو فوراً لاتعلقی کا اظہار کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی نے یہ نہیں کیا مگر وہ ایک مقبول سیاسی جماعت ہے اسے نظر انداز کرنا اور مین سٹریم سے نیچے اتارنا بھی ملکی مفادمیں نہیں ہوگا۔
سیاست کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ اس ڈیڈ لاک یا سیاسی بحران کی چابی صرف اور صرف پارلیمان ہے۔ پارلیمان میں حکومت اور تحریک انصاف دونوں موجود ہیں، نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں ایجنڈے اور دوسرے معاملات کو چلانے کیلئے روزانہ ایک دوسرے سے ملنا پڑتا ہے، پارلیمان کو پلیٹ فارم بناکر مذاکرات کا آغاز کیا جائے، تحریک انصاف کو الیکشن پر جو شکایات ہیں اس کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جاسکتی ہے، تحریک انصاف نے جن نشستوں پر الیکشن کمیشن میں اعتراضات دائر کر رکھے ہیںانہی نشستوں پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، ہو سکے تو مولانا فضل الرحمٰن کو اس کمیٹی کا سربراہ بنا دیا جائے تاکہ یہ معاملہ تسلی بخش طریقے سے طے ہو سکے۔
میں نے اپنے معاشرے کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک اپنی غلطیوں کا اعتراف نہ کرنابھی ہے۔ کھلاڑی سیاستدان نے اپنی جدوجہد کیلئے محمود خان اچکزئی کو آگے لگایا ہے تو انہیں میڈیا، عدلیہ اور اپوزیشن کیساتھ کی گئی زیادتیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہئے۔ ان کے دور میں میڈیا کو معاشی طور پر مفلوج کیا گیا، ہر تنقید کرنے والے صحافی کی ٹرولنگ کی گئی، خواتین تک کو گندی گالیاں دی گئیں، آج وہی سارے صحافی عمران کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کر رہے ہیں مگر تحریک انصاف کو ابھی تک توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے ماضی کی غلطیوں پر معافی مانگے اور خود پر ہونے والی تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی کرے۔ حالت یہ ہے کہ ادھر کوئی اینکر یا صحافی ایک فقرہ بھی تحریک انصاف کے خلاف کہہ دے تو وہ لفافی بن جاتا ہے اور ادھر آپ ان کی تعریف کریں تو زیرو سے ہیرو بنا دیئے جاتے ہیں۔ یہ رویہ جمہوری نہیں بلکہ فاشسٹ ہے ۔ تحریک انصاف اب مشکل دور سے گزر رہی ہے تو نہ صرف کھلاڑی رہنما کو جمہوری اصولوں کو اپنانا چاہیے بلکہ اپنے اندھے عقیدتمندوں کو بھی سکھانا چاہیےکہ جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
آخر میں مقتدرہ سے گزارش ہے کہ 9مئی میں ملوث افراد کو ضرور سزا دیں مگر کروڑوں ووٹ لینے والی جماعت کے ساتھ اپنا رویہ مختلف رکھیں۔ آگ لگانے والے سزا کے مستحق ہیں مگر ووٹ لینے والے تو انتخابی عمل کے تحت جیت کر آئے ہیں انہیں قبول کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ دل بڑا کرکے غلطیوں کی معافی کی گنجائش بھی نکالنی چاہیے۔ جس کسی نے سازش کی ہے یا آگ لگائی ہے اسے عبرت کا نشان بنائیں، سادہ لوح عقیدت مندوں کو انکی بے وقوفی کی سزا بھی دیں مگر یہ خیال کریں کہ وہ منصوبہ بندی سے بے خبر مارے گئے ہیں.......
واپس کریں