محمد بلال غوری
کبھی خواتین اپنی عمر چھپایا کرتی تھیں ،اب مرد بھی یہ بتانے سے گریز کرتے ہیں کہ وہ کتنے برس کے ہوگئے۔اس لئے یہ کالم لکھنے میں کچھ پس و پیش کا سامنا تھا۔جب میں بیس اور پھر تیس سال کا ہوا تو کئی دن غور وفکر میں گزر گئے کہ زندگی کا سفر جو بظاہربہت طویل اور کٹھن محسوس ہوتا ہے کیسے پلک جھپکنے میں گزر جاتا ہے ۔کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیا،نئے سرے سے ترجیحات طے کیں،سمت متعین کی اورمعمولات زندگی میں نظم وضبط لانے کی کوشش کی مگر پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ہر سالگرہ پر یہ احساس دامن گیر نہیں ہوتا کیونکہ 32,31اور33ایک جیسے محسوس ہوتے ہیں لیکن جب دہائی بدلتی ہے تو اعداد اپنا نفسیاتی اثر دکھاتے ہیں ۔چند روز قبل 10اپریل کو جب چالیس ویں سالگرہ آئی تو میں ایک بار پھر ماضی کے سحر میں کھوگیا۔کئی روز مراقبے کی کیفیت میں بسر ہوئے۔خیال آیا کیوں نہ قارئین کو بھی ان جذبات و احساسات میں شریک کیا جائے۔
تخیل کا بے لگام گھوڑا سرپٹ دوڑتا چلا گیا اور یہ تاثر پختہ تر ہوتا چلا گیا کہ چالیس کے ہندسے کو جادوئی حیثیت حاصل ہے۔جب کوئی انسان لقمہ اجل بن جاتا ہے تو ہم چالیس روز ماتم کرتے ہیں ،سوگ مناتے ہیں۔جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے زندگی کا سفر شروع کرنے اور ماں کو روزمرہ کے معمولات کی طرف پلٹنے میں چالیس دن لگتے ہیں۔ طوفان نوحؑ جس نے سب کچھ تہہ و بالا کردیا اور پھر ایک نئے عالم کا ظہورہوا ،مسلسل چالیس دن تک جاری رہا۔حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے مایوس ہوکر بیابان کی طرف نکل گئے تو مراقبے کا یہ عمل چالیس روز و شب جاری رہا۔ حضرت محمد ﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔صوفیا کے مطابق راہ طریقت میں بندے اور خدا کے درمیان چالیس درجے ہوتے ہیں۔گوتم بدھ نے ایک درخت کے نیچے چالیس دن کا چلہ کاٹا۔انسانی شعور کے چار درجے ہیں اور پھر ہر درجے میں دس مراحل یعنی مجموعی طور پر شعور کے چالیس مدارج بنتے ہیں۔شمس تبریز نے زندگی گزارنے کے چالیس اصول بیان کئے ہیں اور اسی تناظر میں ترک مصنفہ ایلف شفق نے ’’The Forty Rules of Love‘‘کے عنوان سے کتاب لکھی ۔
اہل علم و دانش کے مطابق زندگی شروع ہی تب ہوتی ہے جب انسان چالیس سال کا ہوجاتا ہے۔مثلاًسوئٹرز لینڈ کے مشہور ماہر نفسیات کارل جنگ کہتے ہیں زندگی حقیقت میں چالیس سال کے بعد شروع ہوتی ہے اس سے پہلے تو آپ تحقیق کررہے ہوتے ہیں۔شکاگو کے اخبار میں ’’Ann Landers‘‘کے نام سے شروع کئے گئے قلمی سلسلے میں ایک بار بہت خوبصورت بات لکھی گئی۔’’20سال کی عمر تک ہمیں یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔40سال کی عمر میں ہم تفکرات سے لاتعلق ہوجاتے ہیں کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور60سال کی عمر تک پہنچنے پر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ لوگوں نے تو ہمارے بارے میں کبھی کچھ سوچا ہی نہیں۔‘‘بینجامین فرینکلن سے منسوب ایک قول یاد آرہا ہے۔اس نے کہا تھا،20سال کی عمر تک انسان پر خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے،30سال کی عمر میں حس مزاح غالب آجاتی ہے جبکہ 40سال کی عمر میں قوت فیصلہ بڑھ جاتی ہے۔کچھ مفکرین یہ بھی کہتے ہیں کہ چالیس کی دہائی دراصل جوانی کے خاتمے کا آغاز ہے۔خواتین چالیس سال کی عمر تک پہنچتی ہیں تو مزید دلکش اور حسین ہوجاتی ہیں۔مرد اس عمر تک پہنچتے ہیں تو پہلے سے کہیں زیادہ دل پھینک ہوجاتے ہیں۔لڑکپن اور پھر جوانی میں جوش وجذبہ تو پورے جوبن پر ہوتا ہے مگر تجربے اور مشاہدے کی کمی ہوتی ہے لیکن چالیس سال کی عمر توانائی اور شناسائی کا حسین امتزاج ہے۔طبیعت میں لااُبالی پن کے بجائے ٹھہرائو آجاتا ہے۔انسان تصوراتی دنیا سے نکل کر حقیقت پسندی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک جہاں انسان کی اوسط عمر 80برس سے زائد ہے اور نہ صرف اچھی متوازن غذائیں دستیاب ہیں بلکہ طبی سہولیات کی بھی فراوانی ہے ،وہاں تو چالیس سال کی عمر کے لوگ خود کو نوجوان سمجھتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں لیکن پاکستان جہاں اوسط عمر اتنی کم ہے کہ لکھتے ہوئے بھی خوف آتا ہے ،وہاں 40ویں سالگرہ منانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب احتیاطی تدابیر کو مزید موثر انداز میں اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیں۔جہاں فکری صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں ،شعوری ارتقا کا سفر آگے بڑھتا ہے ،وہاں انسان جسمانی طور پر کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے۔کھانے ،پینے اور سونے کے معمولات پر نظر ثانی کی ضرورت پڑتی ہے۔چہل قدمی اور ورزش کو روز مرہ سرگرمیوں میں شامل کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ذیابیطس،بلند فشار خون اور اس نوعیت کے دیگر امراض سے بچنے کیلئے معمول کا چیک اپ باقاعدگی سے کروانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ہلکے پھلکے انداز میں شروع کیا گیا کالم کب سنجیدگی اور متانت کی گہرائی میں اُتر گیا ،بالکل احساس ہی نہیں ہوا۔یہ نگوڑی زندگی بھی شوخی، چلبلاہٹ، کھلنڈرے پن اور شگفتگی سے کب دفعتاًسنجیدہ پن کی طرف لوٹ جاتی ہے کچھ معلوم نہیں ہوتا۔جارج برنارڈ شا نے نجانے کس تناظر میں یہ کہہ دیا تھا کہ چالیس سال سے زائد عمر کا ہر مرد بدمعاش ہے۔اصل میں اس نے’’Scoundrel‘‘کا لفظ استعمال کیا تھا جس کے ایک سے زائد معانی ہوسکتے ہیں۔ معاشرے میں بزرگی کی دہلیز پر قدم رکھتے بعض افراد کو دیکھ کر تو جارج برنارڈ شا کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے مگر اگرچہ ،مگرچہ اور چونکہ چنانچہ کا تکلف گوارہ کئے بغیر سب پر اس قول کا اطلاق کرنا قرین انصاف نہیں۔ آخری بات کہہ کر اجازت چاہوں گا۔چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ آپ بیس سال کے نوجوانوں کو نصیحت کرسکتے ہیں،اپنے تجربے کا رعب جھاڑ سکتے ہیں مگر نقصان یہ ہے کہ 30سال کی لڑکیاں بھی آپ کو ’’انکل‘‘کہہ کر دل جلاتی ہیں۔سب سے زیادہ غصہ تو تب آتا ہے جب زندہ دلی کا مظاہرہ کرنے پر کوئی سنگدل سفید بالوں کا طعنہ دیتا ہے۔
واپس کریں