محمد بلال غوری
جنرل ضیاالحق کے دور میں جہاں فوجی ڈکٹیٹر کے حق میں ’’مرد مومن ،مرد حق‘‘کے نعرے لگا کرتے تھے وہاںیہ نعرہ ایک اور شخص کے لئے بھی مستعمل تھا اور ان کا نام ہے سراج الحق۔سراج الحق تب اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ تھے اور جمعیت کے اجتماعات میں ان کی آمد پر فضا ’’مرد مومن مرد حق،سراج الحق سراج الحق‘‘کے نعروں سے گونج اُٹھتی۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آج ملک میں سپہ سالار کا منصب ایک حافظ نے سنبھال رکھا ہے تو جماعت اسلامی کی زمام کار بھی حافظ کو سونپ دی گئی ہے۔حافظ نعیم الرحمان کے امیر جماعت اسلامی منتخب ہوجانے کو تبدیلی کے خوشگوار جھونکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اس حوالے سے قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ حافظ نعیم الرحمان پاکستان کے طیب اردوان ثابت ہوں گے یا پھر ایک اور عمران خان؟دوسری طرف یہ رائے بھی موجود ہے کہ جماعت اسلامی کا تنظیمی ڈھانچہ اس قدر مضبوط اور موثر ہے کہ امیر جماعت کے بدل جانے سے بڑے پیمانے پر تغیر وتبدل کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔شوریٰ کی طرف سے قیادت کے پیروں میں ایسی بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں کہ کوئی نئی راہ متعین نہیں کی جاسکتی۔
میرے خیال میں جماعت اسلامی کا نظم وضبط بری افواج جیسا ہے ،کورکمانڈرز کی طرح یہاں بھی امیر جماعت اسلامی شوریٰ کو جواب دہ ہوتا ہے مگر یہ کہنا درست نہیں کہ امارت کی مسند پر نئے شخص کے براجمان ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مولانا مودودی کے بعد میاں طفیل نے قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو شاید جماعت اسلامی کے مزاج ،طریقہ کار اور حکمت عملی میں زیادہ فرق نہیں آیا لیکن جب قاضی حسین احمدکا دور شروع ہوا تو جماعت اسلامی کی ترجیحات ،فکر اورعمل میں واضح اور بنیادی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔سیاست کے میدان خارزار میں طویل سفر کے دوران آبلہ پائی و جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہ ملا تو کوچہ سیاست کو ترک کرکے پھر سے ریاضت ،تقویٰ ،طہارت کی طرف لوٹ جانے کا فیصلہ ہوا۔سید منور حسن جیسے مرد درویش کا انتخاب یہ سوچ کرکیا گیا کہ وہ جماعت کو سیاست کی آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک صاف کرکے پھر سے ایک توانا ارتجائی تحریک میں بدل دیں گے ۔ سید زادہ اپنی افتاد طبع کے زیر اثر آتش نمرود میں بے خطر کود پڑا تو معلوم ہوا بت ہیں جماعت کی آستینوں میں۔بہرحال سراج الحق کو سادگی کے استعارے کے طور پر متعارف کروایا گیا۔بتایا گیا کہ ایک عام آدمی ،جو غریب گھرانے کا چشم و چراغ ہے ،وہ ایک بڑی مذہبی و سیاسی جماعت کا امیر بن سکتا ہے ۔ بنیادی طور پر سراج الحق کا انتخاب دیر میں جماعت اسلامی کی زبردست سیاسی کامیابی کے تناظر میں کیا گیا تھا لیکن ان کے سیاسی تدبر سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے زور بیاں ان کی سادگی اور غربت پر مرکوز رہا۔
اب حافظ نعیم الرحمان کے امیر جماعت بن جانے پر بھی ان کے بعض خیر خواہ یہی بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کرائے کے مکان میں رہنے والاشخص امیر جماعت بن گیا حالانکہ وہ اپنی اس تنگدستی کی بنیاد پر آگے نہیں آئے بلکہ کراچی میں جماعت اسلامی کے انداز سیاست کےلئے پسندیدگی کے اظہار میں ارکان جماعت نے انہیں ووٹ دیا ہے۔ویسے بھی کوئی شخص ذاتی زندگی میں امیر ہے یا غریب،چھوٹے گھر میں رہتا ہے یا وسیع و عریض بنگلے میں رہائش پذیر ہے ،عوام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔قائداعظم اکانومی کے بجائے فرسٹ کلاس میں سفر کیا کرتے تھے،خود مولانا مودودی بہت نفاست پسند تھے اور جس طرح کی سادگی کا پرچار کیا جارہا ہے انہوں نے کبھی اسے پسند نہیں کیا۔انہوں نے جماعت اسلامی سے کچھ لیا نہیں بلکہ اپنے اثاثہ جات اور آمدنی میں سے دیا۔تو میری گزارش ہے کہ حافظ نعیم الرحمان کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جائے جو قابل ازیں سراج الحق سے روا رکھا گیا۔
کراچی میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا مزاج ہمیشہ منفرد رہاہے۔جس طرح دیگر ممالک کی اسلامی تحریکوں کے ہاں فروعی مسائل میں اُلجھنے کے بجائے حقیقی معاملات اور موضوعات پر توجہ دی گئی ،اسی طرح کراچی کے جماعتی حلقوں میں بھی کبھی جینز کی پینٹ یا ڈاڑھی کی مقدار کو تقویٰ کا معیار نہیں سمجھا گیا ۔حالانکہ دیگر علاقوں میں جماعت اسلامی اور جمعیت طویل عرصہ ان مباحث میں اُلجھی رہی۔تعلقات عامہ ،میڈیا مینجمنٹ ،بیانیہ سازی اور قیادت کی پروموشن کو ریاکاری اور دکھاوا سمجھ کر نظر انداز کیا گیا ۔نئے سال کے آغاز پر لٹھ بردار جلوس نکالے جاتے ،پینٹ پہننے اور ڈاڑھی نہ رکھنے والوں کو جماعت کے دائرے میں داخلے کا اہل نہ سمجھا جاتا ۔لیکن کراچی میں اس طرح کی آرائشی وزیبائشی فکر موجود نہیں تھی لیکن اس کے باوجود جب حافظ نعیم الرحمان نے کراچی میں مخصوص دائرے سے باہر نکل کر جماعت اسلامی کو ایک عوامی جماعت بنانے کی کوشش کی تو انہیں شدیدمزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔یہ کالم اس تفصیل کا متحمل نہیںہوسکتا اور ویسے بھی جماعت کے وابستگان میری اس بات کا مفہوم بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اس لئے تفصیل میںجانے کی ضرورت نہیں۔اب انہیں منصورہ میں جماعت اسلامی کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے شاید اس سے کہیں زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔اگرچہ جماعت اسلامی کے ارکان کی اکثریت چاہتی ہے کہ روایتی دائرہ کار سے نکل کر اب جماعت اسلامی کو ایک مقبول سیاسی جماعت بنایا جائے ،کوئی طیب اردوان آئے جو ترقی و خوشحالی کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے مگر اس کے لئے جس طرح کی وسعت قلبی اور بقائے باہمی درکار ہے ،اس کا سوچ کر ہی غش کھا کر گر پڑتے ہیں۔حافظ نعیم الرحمان اگر اس داخلی محاذ پر کامیاب ہوگئے تو شبانی سے کلیمی دو قدم ہے۔ترکی ہو،ملائشیا یا پھر مصر ،وہاں کی سیاست کے اپنے متحرکات ہیں۔طیب اردوان بننے کی کوشش کرنے کے بجائے بس وہ حافظ نعیم الرحمان بن کر دکھائیں،کراچی میں جو ٹریلر دکھایا ہے ،وہی فلم چلائیں۔ انہیں سانچوں میں ڈھل جانے کے بجائے سانچے بدل جانے کی طرح ڈالنا ہوگی۔
واپس کریں