دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بنگلہ دیش میں انقلاب کیا گل کھلائے گا؟
محمد بلال غوری
محمد بلال غوری
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب۔شاید یہی المیہ ہے۔ ہم عجلت پسندی سے کام لیتے ہیں۔ آخر ایسی بھی کیا شتابی؟ ایران میں انقلاب آیا تو یاران نکتہ داںنے گرہ لگائی کہ یہ سماج کسی خمینی کا منتظر ہے۔ طالبان نے کابل فتح کیا، صدر اشرف غنی بھاگنے پر مجبور ہوئے تو ہمارے ہاں جشن طرب برپا ہوا، خوشیاں منائی گئیں کہ اب افغانستان بھی گویا ہماری راج دھانی کا حصہ بن گیا۔ اب بنگلہ دیش میں مشتعل مظاہرین کے ہجوم نے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کیا ہے تو اسے جمہوریت کی عظیم الشان کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ انقلاب تو ابھی طفل مکتب ہے، اس لئے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ انقلاب کے وہ خواب جو دیکھتے ہی دیکھتے عذاب ہو گئے کیوں نہ ان سے سبق سیکھنے کی کوشش کی جائے۔ انقلاب ایران کو چھوڑیں ہم ماضی قریب کے تغیر و تبدل سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ قربانیاں دیکر لائی گئی تبدیلی کس طرح سراب ثابت ہوئی۔ 2010ء میں عرب ممالک میں انقلاب کی لہر اُٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسے سیلاب بلا کی شکل اختیار کر لی جو سب کچھ خس وخاشاک کی مانند بہا لے گیا۔ الجزائر اور لیبیا کے درمیان بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک خوبصورت ملک تیونس سے اس تحریک کا آغاز ہوا۔ ایک تعلیم یافتہ نوجوان محمد بوعزیز ی کو دربد کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود ملازمت نہ مل سکی تو اس نے فاقہ کشی سے تنگ آکر سڑک کنارے چھابڑی لگا لی۔ خوانچہ فروشوں سے بھتہ وصول کرنا عام سی بات ہے مگر اس پڑھے لکھے نوجوان نے رشوت دینے سے انکار کیا تو ایک خاتون پولیس افسر نے سرعام اس پر تشدد کیا اور عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی۔ اس تذلیل و تحقیر سے تنگ آکر محمد بوعزیزی نے خود سوزی کر لی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس نوجوان کے بدن کو جھلسانے والی آگ کے شعلے پورے خطے کو جلا کر بھسم کر دیں گے۔ حکومتی ظلم وجبر کے خلاف احتجاج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں تیونس کے حاکم زین العابدین بن علی کا 30سالہ دورِ اقتدار انجام کو پہنچا اور اسے ملک سے فرار ہو کر سعودی عرب میں پناہ لینا پڑی۔ الجزائر، اردن اور عمان کی حکومتوں نے حالات کی نزاکت کا بروقت اِدراک کرتے ہوئے اصلاحات کا اعلان کر دیا۔ مگر تبدیلی کی اس لہر نے طوفان کی شکل اختیار کر لی۔ لیبیا ،مصر، شام، یمن اور بحرین اس سونامی کی زد میں آ گئے۔ مصر کا تحریر اسکوائر عوامی احتجاج کا مرکز بن گیا۔ ڈکٹیٹر حسنی مبارک جو 30سال سے بلاشرکت غیرے حکومت کر رہے تھے، ان کا تختہ اُلٹ گیا، بیرون ملک فرار ہونے کا موقع نہ مل پایا اور ٹرائل کے بعد انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ لیبیا کے فرماں روا معمر القذافی 42سال سے حکومت کر رہے تھے اور کبھی کسی نے انہیں چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کی تھی مگر انقلاب کی یہ لہر تریپولی پہنچی تو آہنی ہاتھوں سے حکومت کرنے والے کرنل قذافی ملک چھوڑ کر برکینا فاسو میں پناہ لینے کا فیصلہ کرنے پر غور کرنے لگے۔ اس دوران باغیوں نے انہیں دبوچ لیا اور بدترین تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ یمن کے صدر علی عبداللہ صالح جو گزشتہ 22بر س سے عنان اقتدار پر قابض تھے، انہیں احتجاجی مظاہروں کے بعد مستعفی ہونا پڑا۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم کرنے کی کوشش میں پورا ملک تباہ و برباد ہو گیا۔ تبدیلی کی اس لہر کو عرب بہار (Arab Spring)کا نام دیا گیا لیکن بعد ازاں یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ جسے بہار کی رُت سمجھ کر خوشیاں منائی جارہی تھیں وہ تو خزاں رسیدہ موسموں کا ہی ایک روپ تھا۔ مصر جہاں حسنی مبارک کی رُخصتی کو دیوار برلن گرنے کے واقعہ سے تشبیہ دی گئی، وہاں ایسا جمود طاری ہوا کہ حالات پہلے سے بھی کہیں زیادہ بدتر ہو گئے ہیں۔ مصر کے لوگ سلطانی جمہور کی صبح خوش جمال کا سورج طلوع ہونے پر بہت نازاں تھے مگر جنرل سیسی نے مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر ایسی خوفناک آمریت کی بنیاد رکھی کہ لوگ حسنی مبارک کے مظالم بھول گئے۔ لیبیا میں آج بھی افراتفری کا عالم ہے، بدامنی اور لاقانونیت کا راج ہے، لوگ قذافی کے دور کی معاشی خوشحالی کو یاد کرتے ہیں۔ اب یہ بات بھی راز نہیں رہی کہ عرب بہار کی آڑ میں امریکی حکومت نے لیبیا کو عدم استحکام سے دوچار کیا۔ شام میں آج بھی خانہ جنگی ہے ،پورا ملک ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ یمن میں اس قدر متحارب گروپ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں کہ خود انہیں معلوم نہیں کہ وہ کس کے خلاف اور کیوں لڑ رہے ہیں۔ انارکی کے سبب معیشت کا ستیا ناس ہو گیا، لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔
تیونس وہ واحد ملک ہے جہاں عوامی احتجاج کے بعد کسی حد تک مثبت تبدیلی آئی لیکن اب اس کی بساط بھی لپیٹ دی گئی ہے۔ زین العابدین بن علی کی رُخصتی کے بعد وہاں دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی۔ نیا آئین منظور ہوا۔ ملک جمہوریت کے سفر پر گامزن ہوا لیکن 2019ء میں صدر منتخب ہونے والے قیس سعید نے نوزائیدہ جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا۔ جولائی 2021ء میں انہوں نے ایمر جنسی نافذ کرکے بیشتر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ فروری2022ء میں عدلیہ کے ادارے سپریم کونسل آف مجسٹریٹس کو ختم کردیا اور مارچ 2022ء میں پارلیمنٹ تحلیل کر دی۔ پھر ایک نیا آئین تیار کیا اور جنرل ضیاالحق کی طرح بوگس ریفرنڈم کے ذریعے اس کی منظوری لی گئی۔ فروری 2023ء میں انتخابات کروائے گئے، عوام نے بائیکاٹ کیا، ٹرن آئوٹ محض 12فیصد رہا مگر قیس سعید دوبارہ منتخب ہونے میں کامیاب رہے۔ لوگ اب بھی بے روزگاری سے پریشان ہیں۔ بوعزیزی جیسے نوجوان نوکریوں کی تلاش میں ہیں اور رشوت کا رجحان پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی مشتعل ہجوم کے ذریعے جو تبدیلی آئی اسے خوشگوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ شیخ حسینہ واجد کا آمرانہ طرز حکومت اپنی جگہ مگر ان کے دور میں جس طرح معاشی ترقی ہوئی اور بنگلہ دیش ایشین ٹائیگر بن کر اُبھرا، میرا خیال ہے تبدیلی کا بخار اُتر جانے کے بعد بنگلہ دیش کے عوام اسے یاد کر کے بہت پچھتائیں گے۔
واپس کریں