محمد بلال غوری
کسی لکھاری پر اس سے بڑا ظلم نہیں ہوسکتا کہ اس کے سامنے اسکی تحریر میں کانٹ چھانٹ کی جائے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور کی بات ہے۔میری موجودگی میںموقر قومی اخبار کے مدیر نے ایک کالم کا حشر نشر کردیاتو وہ کالم نگار (جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اسلئے نام نہیں لکھ رہا)تڑپ اُٹھے اور کہنے لگے’’جناب!آپ نے تو کالم کا ڈنگ ہی نکال دیا۔‘‘ مدیر باتدبیر نے مسکراتے ہوئے کہا ’’قبلہ!آپ کب سے ڈنگ مارنے لگے ؟کالم نگار تو فن کار ہوتا ہے جسے اپنے قلم کی جولانیوں سے یوں سچ آشکار کرنا ہوتا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔‘‘یہ مکالمہ سپریم کورٹ کے ایک عالی مرتبت جج کے ریمارکس کی نسبت سے یاد آیا۔قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے قانون میں ترمیم کا بل جسے سپریم کورٹ کالعدم قرار دے چکی ہے ،اس فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل پر سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میںسپریم کورٹ کا پانچ رُکنی بنچ ان نظر ثانی درخواستوں کو سن رہا ہے اور سابق وزیراعظم عمران خان بھی اڈیالہ جیل سے بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہورہے ہیں۔ دوران سماعت پہلے جسٹس جمال مندوخیل نے لب کشائی کی اور کہا کہ وزیراعظم نے ہمیں کالی بھیڑیں کہا ہے ۔میں اپنی بات کرتا ہوں میں نہ صرف میڈیا اور سوشل میڈیا دیکھتا ہوں بلکہ اخبارات بھی پڑھتا ہوں۔اس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے وضاحت کی کہ وزیراعظم نے کالی بھیڑوں کی اصطلاح ریٹائرڈ جج صاحبان کیلئے استعمال کی ہے ۔اس پر جسٹس اطہر من اللہ گویا ہوئے،اٹارنی جنرل صاحب! وزیراعظم کو بتا دیں عدلیہ میں کوئی کالی بھیڑیں نہیں، ججز کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بِھڑ ہیں، وزیراعظم سمجھتے ہیں عدلیہ میں کالی بھیڑیں ہیں تو ریفرنس فائل کر دیں۔ دراصل چند روز قبل مسلم لیگ (ن)کی جنرل ورکرز کونسل کا اجلاس ہوا جس میں نوازشریف صدر منتخب ہوئے ۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ،ججز کی اکثریت ملکی خوشحالی پر متفق ہے لیکن عدلیہ میں موجود چند کالی بھیڑیں عمران خان کو ریلیف دینے پر تُلی ہوئی ہیں۔ معزز جج صاحبان نے اس بیان کے تناظر میں ردعمل دیا اور ایک جج صاحب نے خود کو کالی بھِڑ قرار دیدیا۔
مجھے تجسس رہا کہ جج صاحب نے اپنے مافی الضمیر کا اظہار کس زبان میں کیا۔معلوم ہوا کہ انہوں نے انگریزی میںکہا جج کالی بھیڑیں نہیں بلکہ Black Bummble Beeہیں۔اگرچہ شہد کی بڑی مکھیوں کو بھی ان میں شمار کیا جاسکتا ہے مگر اس سے مراد ایسے حشرات ہیں جنہیں بہت خوفناک خیال کیا جاتا ہے۔اردو میں انہیں ’’بھِٹر‘‘کہا جاتا ہے ،بھنورے کا نام دیا جاتا ہے تو مقامی زبانوں میں اسے ڈیموں یا بھونڈ کا نام بھی دیا جاتاہے۔ آپ نے وہ مزاحیہ اشعار تو سنے ہونگے ’’گرمیوں میں شکر دوپہری، ہم بیری پہ چڑھیا کرتے تھے۔ منہ سج پڑولا ہوتا تھاجب ڈیموں لڑیا کرتے تھے ۔‘‘بھونڈ تو بہت مشہور اصطلاح ہے۔ جو من چلے لڑکیوں کے کالج یا یونیورسٹی کے باہر کھڑے ہوکر آنکھیں ٹھنڈی کرتے ہیں انہیں ’’بھونڈ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس مشغلے کو ’’بھونڈی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ جج صاحب نے خود کو بھِڑ یا شہد کی مکھی سے تشبیہ یہ سوچ کر دی کہ کوئی ترنوالہ نہ سمجھے۔ میری دانست میں یہ ایک طرح کا انتباہ ہے۔ وزیراعظم سمیت انتظامیہ اور مقننہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ آپ جلسوں میں حال ِدل بیان کرسکتے ہیں ،زیادہ سے زیادہ کوئی بیان داغ سکتے ہیں، پارلیمنٹ میں اپنی بھڑاس نکال سکتے ہیں مگر عدلیہ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
ہم تو آج تک یہی سمجھتے رہے کہ جج صاحبان ایسی شفیق ہستیاں ہیں جو سائل کو انصاف مہیا کرتی ہیں، ڈنگ مارنے والوںکا ڈنگ نکالنے کا کام کرتی ہیں ،زخموں پر مرہم رکھتی ہیں، دل جوئی و دل گیری کے جذبات سے معمور ہوتی ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ بعض منصف خود کو خوفناک بِھڑ خیال کرتے ہیں۔ یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہوتی تو یقیناً کان نہ دھرتے مگر بھری عدالت میں ایک جج صاحب نے بذات خود یہ بات کہی ہے تو کسی شک و شبہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ ویسے تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں جج صاحب کو ایک واقعہ یاد دلانا چاہتا ہوں۔ایک طرم خان قسم کے جج صاحب ہوا کرتے تھے جسٹس مولوی مشتاق ۔جنرل ضیاالحق کے دور میں انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔ذاتی مخاصمت کی بنیاد پر وہ منصف کے بجائے بھڑ بن گئے اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ڈستے رہے ۔ ایک ایسے مقدمے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنادی جس کی کوئی عدالتی نظیر نہیں ملتی۔صرف یہی نہیں بلکہ جب اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوئی تو موصوف وہاں بھی سماعت کرنے والے جج صاحبان سے رابطہ کرکے اس مقدمہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہے۔آخر کار یہ اپیل مسترد ہوگئی ،نظر ثانی اپیل خارج کردی گئی اور بھٹو کو پھانسی دیدی گئی ۔مگر اس عدالتی طرم خان کیساتھ کیا ہوا؟تاریخ بتاتی ہے کہ بوقت مرگ جب نماز جنازہ ہورہا تھا تو شہد کی مکھیوں نے مولوی مشتاق کے جسد خاکی پر حملہ کردیا ۔شاید شہد کی مکھیوں کو یہ بات ناگوار گزری کہ ایک انسان جس کا کام انصاف کرنا تھا اس نے خوفناک حشرات کی طرح ڈنگ مارنے کی روش کیوں اپنائی۔
ویسے جسٹس اطہر من اللہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس صفدر علی شاہ کے داماد ہیں ۔جسٹس صفدر علی شاہ وہ بہادر جج ہیں جنہوں نے ’’بھِڑ ‘‘بننے سے انکار کردیا۔انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی سزائے موت کی توثیق نہیں کی اور اکثریتی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا جس کی پاداش میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق کے عتاب کا نشانہ بھی بنے۔ہم تو جسٹس اطہر من اللہ کو انہی درخشندہ روایات کا امین خیال کرتے ہیں۔مگر نجانے کیوںوہ خود کو Black Bummble Bee قرار دینے پر مصر ہیں۔
واپس کریں