محمد بلال غوری
آپ شیخ رشید کو جتنا چاہے برابھلا کہیں لیکن اسکا شمار ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو عوام کے مسائل کو بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔شاید آپ بھول گئے ہوں مگر مجھے شیخ رشید کی کہی ہوئی ایک بات آج بھی یاد ہے۔وہ کہتا تھا بجلی اتنی مہنگی ہوجائے گی کہ لوگ لوڈشیڈنگ کیلئے دعا کیا کرینگے۔آج صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کی آمدن کا بڑا حصہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہورہا ہے۔یہ فیصلہ نہیں ہوپاتا کہ گھر کا کرایہ دیںیا بجلی کا بل۔ ٹھنڈی ہوا پھینکنے والی مشین تو کیا اب پنکھوں، ایئرکولر ،فریج، واشنگ مشین اور برقی قمقموں کا بل دن میں تارے دکھا دیتا ہے۔ استعمال شدہ بجلی کی قیمت سے کہیں زیادہ انواع و اقسام کے ٹیکس کا تخمینہ منہ چڑاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بجلی کا بل نہیں یہ کوئی ’’جگا ٹیکس‘‘ ہے جو بدمعاشی اور ڈھٹائی کیساتھ وصول کیا جارہا ہے۔ لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عوام کی رگوں سے آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کے باوجود معاشی معاملات بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ گردشی قرضوں کا پہاڑ مسلسل بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ صرف پاور سیکٹر کا سرکولر ڈیبٹ 2310ارب روپے ہوچکا ہے۔ اور ان میں سب سے بڑا حصہ آئی پی پیز کا ہے جن کو حکومت نے 1800ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ پاکستانی عوام کا خیال ہے کہ شاید آئی پی پیز کے ٹھیکے مقامی سرمایہ کاروں کے پاس ہیں مگر پورا سچ یہ ہے کہ زیادہ تر ادائیگیاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کرنی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک دوست ملک کی طرف سے آئی پی پیز کے 550ارب روپے کے واجبات فوری طور پر ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔
دراصل لوڈشیڈنگ ختم کرنے کیلئے ہماری حکومتوں نے نجی شعبہ کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال کر سب سے بڑی غلطی کی اور یہ دو چار برس کی بات نہیں گزشتہ 30سال سے ہم مسلسل اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے چلے گئے اور احساس اب ہوا جب خون کی آخری بوندیں باقی رہ گئیں۔ بینظیر بھٹو صاحبہ کی دوسری حکومت میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہ شاہانہ پیشکش کی گئی کہ آپ پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری کریں، ہم آپ کو روپے کی بجائے ڈالروں میں ادائیگیاں کریں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ کو ’’کیپسٹی‘ ‘پیمنٹ بھی دی جائیگی۔ یعنی اگر کسی سرمایہ کار نے 500میگاواٹ کا پاور پلانٹ لگایا ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے حکومت اس سے بجلی نہیں خرید پاتی، سال بھر یہ پلانٹ بند پڑا رہتا ہے تو بھی معاہدے کے مطابق پوری ادائیگی کی جائیگی۔ بعد میں آنیوالی حکومتوں نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ بالخصوص جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ 18,18گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوا کرتی تھی۔ بجلی و توانائی کے وفاقی وزیر راجہ پرویز اشرف نے فوری طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے کرائے کے بجلی گھروں کا تصور متعارف کروایا اور اسی تناظر میں ’’راجہ رینٹل‘‘کا خطاب پایا۔ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ آصف زرداری بہت کایاں سیاستدان ہیں، یہ حکومت جانے سے چھ ماہ پہلے جادو کی چھڑی گھمائیں گے، لوڈشیڈنگ ختم ہو جائیگی اور لوگ سب باتیں بھول جائینگے۔ لیکن کوئی جادو نہ چل سکا، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے لوگوں نے پیپلز پارٹی کو 2013ء کے انتخابات میں مسترد کردیا۔ مسلم لیگ (ن)کی حکومت آگئی۔ میاں شہبازشریف تو کہتے تھے 100دن میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کردی تو میرا نام شہبازشریف نہیں لیکن وزیراعظم میاں نوازشریف نے واضح کیا کہ یہ جذباتی بیانات ہیں، لوڈشیڈنگ ختم ہو جائیگی لیکن کوئی واضح ٹائم لائن نہیں دی جاسکتی۔ اس دوران ایک دوست ملک جس سے دوستی سمندر سے زیادہ گہری، پہاڑوں سے زیادہ بلند اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے، اسے پرکشش شرائط پر پاور پلانٹ لگانے کی دعوت دی گئی۔ یہی وہ دور تھا جب شیخ رشید کہا کرتے تھے کہ بجلی اتنی مہنگی ہو جائیگی کہ لوگ لوڈشیڈنگ کی دعائیں کرینگے۔ ہم کہتے تھے بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یعنی آئی پی پیز کی لابی آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے۔ ممکن ہے کوئی سائفر لیک ہو جائے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ آرمی ایکٹ کی کاپی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں مگر حکومت نے کن شرائط پر ان آئی پی پیز کیساتھ کیا معاہدے کئے ہیں، وہ کب تک کارآمد ہیں، یہ معلومات قومی سلامتی کے معاملات سے بھی زیادہ حساس ہیں اور حکومت کسی قیمت پر یہ تفصیلات فراہم کرنے کو تیار نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی بھی معاہدے پر دستخط کرتے وقت اسے ختم کرنے کی شق ضرور شامل کی جاتی ہے مگر آئی پی پیز کیساتھ کئے گئے معاہدوں میں ’’ٹرمینیشن کلاز‘‘ شامل نہیں۔ چونکہ انہیں ادائیگیاں ڈالروں میں کرنی ہوتی ہیں اسلئے بجلی کا یونٹ 8روپے سے 45روپے ہوجانے کے باوجود گردشی قرضوں کا حجم بڑھتا جارہا ہے۔ آپ بجلی کا یونٹ 100روپے کا کردیں پھر بھی یہ واجبات ادا نہیں کئےجاسکتے ۔لوگوں نے بجلی کے بلوں سے چھٹکارا پانے کی ایک صورت یہ نکالی کہ شمسی توانائی پر انحصار کرتے ہوئے سولر پینل لگالئے جائیں مگر اب حکومت اس رجحان کی بھی حوصلہ شکنی کررہی ہے کیونکہ سولر پینل بالعموم ان شہری علاقوں کے صارفین لگاتے ہیں جہاں بجلی چوری نہیں ہوتی۔ لہٰذا ایک طرف سے ریونیو کم ہو رہا ہے اور دوسری طرف یہ مسئلہ ہے کہ بجلی خریدیں یا نہ خریدیں، آئی پی پیز کو ادائیگی تو کرنی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ حکومت اور کچھ نہیں کرسکتی تو کم ازکم آئی پی پیز سے کئے گئے تمام معاہدوں کی تفصیلات ہی پبلک کر دے۔ عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ پتہ تو چلے کہ یہ عذاب کب تک مسلط رہیگا، اس سے چھٹکارا پانے کی کوئی صورت ہے یا نہیں؟ ورنہ بجلی کے بلوں پر عوام کے اشتعال کا لاوا پھٹ پڑا تو کچھ باقی نہیں رہیگا۔ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور کب کوئی چھوٹا سا واقعہ کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو ،اس حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔
واپس کریں