محمد بلال غوری
کراچی گلشن اقبال کے رہائشی صحافی اور مصنف شہزاد منظر نے اردو ادب اور شعبہ صحافت کیلئے بہت گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔ 13کتابوں کے مصنف شہزاد منظر روزنامہ مساوات کے معاون مدیر کے طور پر کام کرتے رہے۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں روزنامہ مساوات اور اس سے وابستہ صحافیوں کو ابتلاو آزمائش کا سامنا کرنا پڑاتو روزنامہ جنگ اور اخبار ِجہاں میں قلمی نام ’’تبسم‘‘ سے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ نومبر 1997ء میں 64برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے چھوٹے بیٹے پروفیسر امتیاز عارف کراچی اقرا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں جبکہ بڑے بیٹے عمران عارف تنگدستی اور بے روزگاری کے باعث موٹر سائیکل پر پاپڑ اور بچوں کیلئے چپس فروخت کرکے گزر بسر کیا کرتے تھے۔ ان کے تین بچوں میں سب سے چھوٹی بیٹی آمنہ بہت ذہین اور قابل تھی۔ اس نے گریجویشن کے دوران کراچی یونیورسٹی سے معاشیات کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی تو چچا پروفیسر امتیاز عارف نے مشورہ دیا کہ وہ بزنس کے شعبہ میں ہی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے اقرا یونیورسٹی میں داخلہ لے۔ آمنہ کو ایک نجی کمپنی میں کنسلٹنٹ کی نوکری مل گئی۔ وہ صبح ملازمت پر جاتی اور شام کو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی۔ اسے بیتابی سے 17ستمبر 2024ء کا انتظار تھا کیوں کہ اس دن اسے یونیورسٹی کی طرف سے ڈگری ملنا تھی جس کے بعد اس کی تنخواہ بڑھ جاتی۔ مگر اس کے یہ خواب اور ارمان اس کے ساتھ ہی ایک امیر زادی کی گاڑی کے نیچے آ کر کچلے گئے۔ 19اگست کی شام اس کے والد عمران عارف اسے معمول کے مطابق موٹر سائیکل پر یونیورسٹی سے لیکر گھر جا رہے تھے کہ کارساز روڈ پر سفید رنگ کی پراڈو گاڑی میں سوار نتاشا نام کی خاتون نے انہیں کچل کر مار ڈالا۔ اس خاتون نے فرار ہونے کی کوشش میں دیگر موٹر سائیکل سواروں کو بھی ٹکر ماری مگر ایک اور گاڑی سے ٹکرانے کے بعد اس کی پراڈو اُلٹ گئی تو وہاں لوگ جمع ہو گئے اور اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ یہ خاتون ایک بڑی کاروباری اور بااثر شخصیت کی بیوی ہے۔ لہٰذا پورا سسٹم اسے بچانے کیلئے میدان میں آ گیا۔ اسے حوالات میں بند کرنے کے بجائے اسپتال لے جایا گیا تو عملے نے ذہنی مریض قرار دیکر وہاں داخل کر لیا۔ اگلے روز معاملہ عدالت کے سامنے آیا تو ملزمہ کو پیش نہ کیا جا سکا کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق وہ خاتون اس قابل نہیں کہ بیان دے سکے۔ اسکے وکیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ موکلہ نفسیاتی مسائل کے باعث گزشتہ پانچ برس سے زیر علاج ہے، اسے کوئی بات یاد نہیں رہتی، کسی کو بتائے بغیر وہ گاڑی لیکر نکل پڑی۔ تفتیش کرنے والے پولیس افسر نے پانچ دن کا جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی۔ عدالت نے ایک دن کا ریمانڈ دیا مگر ڈاکٹر نے یہ کہہ کر پولیس حکام کو رسائی دینے سے انکار کر دیا کہ زیر علاج ملزمہ سے تفتیش نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال اگلے روز جب ملزمہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا اور اب کچھ دن میں اسکی ضمانت ہو جائیگی تو یہ مقدمہ سرکاری فائلوں کے انبار میں دفن ہو کر ختم ہو جائے گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 23جون 2017ء کو کوئٹہ کے جی پی او چوک میں فرائض سرانجام دے رہے ٹریفک سارجنٹ حاجی عطا اللہ کو ایم پی اے مجید اچکزئی نے اپنی تیز رفتار پراڈو گاڑی کے نیچے کچل کر قتل کر دیا تھا۔ کیا ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی ہوئی؟ 8جون 2022ء کو ایک جج صاحب کی صاحبزادی شانزے ملک نے پراڈو گاڑی کے نیچے دو نوجوانوں شکیل تنولی اور حسنین علی کو کچل کر مار دیا تھا، کیا اس مقدمے میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے والے رفاقت تنولی کو انصاف ملا؟
محولا بالا تینوں واقعات کو حادثات میں ہی شمار کیا جائے تو اب تک ملزموں کو قانون کے مطابق سزا کیوں نہیں ہو سکی؟ کراچی میں پیش آنے والے افسوسناک واقعہ پر لوگوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ پراڈو پر سوار نتاشا نام کی خاتون شراب کے نشے میں دھت تھی۔ جب تک طبی معائنے کے ذریعے اس بات کی تصدیق نہ ہو جائے تب تک اس طرح کے الزامات پر یقین نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ خاتون نشے کی حالت میں تھی۔ یہ نشہ دولت کا ہو سکتا ہے، سماجی مرتبے اور اثر و رسوخ کا خمار ہو سکتا ہے یا پھر مہنگی گاڑی کی مستی اور سرور ہو سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ خاتون جسے ذہنی مریض قرار دیکر سزا سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، نہ صرف ایک کمپنی کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ہے بلکہ کئی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز میں شامل ہے۔ یہ انہونی پاکستان میں ہی ہو سکتی ہے کہ کوئی ذہنی مریض کئی کاروباری ادارے بہت کامیابی سے چلا رہا ہو۔ آپ اس خاتون کی اپنے شوہر کے ہمراہ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر دیکھیں، کیا زندگی سے بھرپور ان تصاویر سے لگتا ہے کہ یہ محترمہ کسی قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتی ہیں؟ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس طرح کے ذہنی مریضوں کی بہتات ہے تو انہیں سڑکوں پر کھلا چھوڑ کر دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے بجائے انہیں پاگل خانوں میں قید کیوں نہیں کیا جاتا؟
اگر ہمارے ہاں نظام عدل اس طرح کے امیر زادوں کو سزائیں نہیں دے سکتا تو پھر ایک نیا قانون بنادیں کہ آئندہ اگر کوئی موٹر سائیکل سوار یا پیدل چلتا ہوا شخص کسی پراڈو گاڑی کے نیچے آکر کچلا گیا تو قصور گاڑی چلانے والے کا نہیں بلکہ مرنے والے کے سر ہو گا۔ ہم اکثر سوال کرتے ہیں کہ ہجوم کے ذریعے فوری انصاف کے واقعات کیوں بڑھتے جا رہے ہیں، یہ سبب ہے جناب! بااثر افراد کے خلاف کارروائی نہ ہونا۔
واپس کریں