محمد بلال غوری
نونہالان ِانقلاب خفا رہتے ہیں ،کہتے ہیں جب سوارِ اشہب ِدوراں آچکا تو اس کی تائید ونصرت سے پس وپیش کیوں کرتے ہو؟لگتا ہے تم کرانتی کارنہیں عیار ہو،موقع ملتے ہی بھیس بدل لیا۔جب فسوں گر ہی اس طرح کے القابات سے نوازنے لگیں توکوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟یوں تو عصر حاضر کے فریب خوردہ شاہینوں کو سمجھانا کار لاحاصل ہے مگر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔چند روز ہوتے ہیں اڈیالہ جیل میں اسیر قائد ِانقلاب جو اپنے تئیں قید تنہائی کا شکار ہیں اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہیں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کیلئے مخصوص کال کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے ،ان سے صحافیوں کی سیر حاصل گفتگو ہوئی ۔اب یہ مت پوچھئے گا کہ قید تنہائی میں رکھے گئے اسیروں کو اس طرح کی سہولیات کب سے میسر ہونے لگیں۔اس نشست کے دوران ان سے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ سے متعلق متنازع ٹویٹ کا پوچھا گیا تو فرمانے لگے،میں ٹویٹ کو ’’Own‘‘کرتا ہوں یعنی اس کی ذمہ داری لیتا ہوں البتہ اس کے ساتھ جو ویڈیو جاری کی گئی ،وہ نہیں دیکھ پایا اس لئے اس پر بات نہیں کروں گا۔ایک صحافی نے پوچھا ،خان صاحب! جب میاں نوازشریف اپوزیشن میں تھے اور وہ شیخ مجیب الرحمان کی بات کیا کرتے تھے ،حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا حوالہ دیا کرتے تھے تو آپ کا فرمان عالیشان تھا کہ فوج پر تنقید کرکے میاں نوازشریف اس ادارے کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور خود شیخ مجیب الرحمان بننا چاہتا ہے ۔اب آپ خود وہی باتیں کررہے ہیں تو کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟عصر حاضر کے نیلسن منڈیلا نے کہا ،اس وقت تک میں نے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پڑھی نہیں تھی ،اب پڑھ چکا ہوں۔غالب کے الفاظ مستعار لوں تو اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔نجانے ابھی اور کیا کچھ پڑھنا باقی ہے ۔خداجانے انہوں نے آئین اور جمہوریت سے متعلق بھی کچھ پڑھ رکھا ہے یا نہیں؟محبانِ عمران کہتے ہیں آپ ماضی کی غلطیوں پر گرفت نہ کیجئے ۔ان کے مصاحبین و پیروکاراصرار کرتے ہیں کہ سب راہروان عشق انہی راستوں پر چل کر آتے ہیں اور شعوری ارتقا کے نتیجے میں حقیقی منزل پاتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا میاں نوازشریف ،سب کسی جرنیل کی اُنگلی پکڑ کر سیاست میں آئے ۔اگر عمران خان نے بھی اپنے پہلے دورِ حکومت میں سنگین نوعیت کی غلطیوں کا ارتکاب کیا تو اس بحث میں اُلجھ جانے کے بجائے آگے بڑھئے اور یہ دیکھئے کہ آج وہ کہاں کھڑے ہیں۔بالکل بجا فرمایا ۔انسان بدل جائے تو ماضی کے کردار پر طعنہ زنی کم ظرف لوگ کیا کرتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جناب عمران خان مصائب و آلام کی وادیوں سے گزر جانے کے بعد کندن ہوچکے ہیں؟متذکرہ بالا نشست کے دوران ہی ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ اب تو سپریم کورٹ نے بھی سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی تجویز دیدی ہے،کیا آپ سیاستدانوں کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں ۔یہ بات دراصل ایک عالی مرتبت جج کے ریمارکس کے تناظر میں پوچھی گئی ۔قومی احتساب بیورو ترمیمی بل جسے سابق چیف جسٹس کالعدم قرار دے گئے ،اس کے خلاف وفاق کی نظر ثانی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ،جب گھر میں آگ لگی ہو تو سب کے ساتھ ملکر آگ بُجھاتے ہیں یہ سوال نہیں اُٹھاتے کہ پانی پاک ہے یا ناپاک۔بہر حال اس سوال پرکپتان نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا،میں صرف ان سے بات کروں گا جو طاقتور ہیں۔اور پھر فخریہ انداز میں بتایا کہ جب جنرل پرویز مشرف برسراقتدار تھے تو انہوں نے وزیراعظم شوکت عزیز سے بات چیت کرنا گوارہ نہیں کیا بلکہ جنرل پرویز مشرف کے نمائندوں سے مذاکرات کیا کرتے تھے۔یہ محض جوش جذبات میں کہی گئی بات نہیں بلکہ ان کے انقلاب کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ یہ تو کل کی بات ہے کہ سابق صدر مملکت جناب عارف علوی نے تمام تر تکلف اور تردد بالائے طاق رکھتے ہوئے فرمایا ،بات ہوگی تو گھر کے مالک سے ہوگی ،مالی یا باہر کھڑے ٹھیلے والے سے نہیں ہوگی۔جو عارف علوی نے فرمایا ،سب نونہالانِ قوم کا سرمایہ مگر کیا ہی بہتر ہوتا اگر وہ یہ وضاحت فرمادیتے کہ 2018ء سے 2021ء تک جب تحریک انصاف کی حکومت تھی تو جناب عمران خان اور عارف علوی میں سے کون مالی تھا اور کس نے ایوان کے باہر ٹھیلہ لگا رکھا تھا؟مسئلہ یہ ہے کہ قائد انقلاب جناب عمران خان سمیت سب کرانتی کار اس بات پر کامل ایمان لاچکے ہیں کہ مقتدرہ ہی اس گھر کی اصل مالک ہے اور عوام ہوں یا ان کے منتخب نمائندے سب کی حیثیت کرایہ دارکی سی ہے۔انہیں یقین ہے کہ جن کے ’’فیض‘‘سے کل نیا پاکستان بنا تھا ،آج بھی انہیں کے توسط سے اقتدار کی راہ ہموار ہوگی۔سوال یہ ہے کہ اگر آپ واقعی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بعد جمہوریت پسندی کی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں ،سویلین بالادستی کے خواہاں ہیں ،ملک کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو پھر گھر کے مکینوں سے ملکر یہ قبضہ واگزار کروانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟آپ خود مالک بننے کی جدوجہد پر یقین کیوں نہیں رکھتے؟۔ لیکن آپ ایسا ہرگز نہیں کریں گے ۔کیونکہ آپ اپنی انا کی اساطیر میں قید ہیں ۔اڈیالہ جیل سے تو آپ شاید کبھی رہا ہوجائیں مگر اس قید سے چھٹکارا پانے کا کوئی امکان نہیں۔جب آپ کی سوچ یہی ہے کہ طاقتوروں سے بات کرنی ہے ،غیر سیاسی قوتوں کے نمائندوں کو جھک کر سلام کرنا ہے تو پھر انقلاب اور مزاحمت کے ڈھکوسلوں پر کوئی کیسے یقین کرے ۔تاجو ر نجیب آبادی کے بقول
نہ میں بدلا نہ وہ بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیوں کر اعتبار ِ انقلابِ ناتواں کرلوں
واپس کریں