محمد بلال غوری
سعودی صحافی جمال خشوگی کے استنبول کے سفارتخانے میں قتل نے دنیا بھر کے خفیہ اداروں کو سوچ کے نئے زاویئے فراہم کردیئے۔14فروری 2019ء کو پلوامہ میں فوجی کانوائے پر حملے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ایک اہم ترین خفیہ اجلاس ہوا جس میں انکے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دول اور خفیہ ادارے ’’را‘‘کے حکام نے شرکت کی ۔اس اجلاس میں یہ منصوبہ پیش کیا گیا کہ اپنی طاقت کا سکہ منوانے کیلئے دیگرممالک میں گھس کر ان افراد کو نشانہ بنایا جائے جو بھارت کیلئے خطرے کا باعث ہیں۔اس منصوبے کے حق میں یہ دلیل دی گئی کہ اگر اسرائیلی ایجنسی موساد اور روس کا خفیہ ادارہ کے جی بی بیرون ملک اپنے دشمنوں کو ختم کرسکتا ہے تو’’را‘‘اس پالیسی کو اختیار کیوں نہیں کرسکتی ؟جس طرح جمال خشوگی کو قتل کرکے ایک موثر پیغام دیا گیا ،اسی طرح بھارت کو بھی یہ سب کرکے خود کو علاقائی طاقت کے طور پر منوانا ہوگا۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس جارحانہ منصوبے کی منظوری دیدی۔فیصلہ ہوا کہ بھارتی خفیہ ادارے’’را‘‘کی سربراہی کسی ایسے شخص کو دی جائے جو بیرون ملک اس طرح کی جارحانہ کارروائیوںکے مشن کو کامیابی سے مکمل کرسکے۔ چنانچہ اجیت دول کے نہایت بااعتماد افسر سمنت کمار گوئل کو ’’را‘‘کا سربراہ تعینات کردیا گیا۔باقاعدہ ’’ہٹ لسٹ‘‘تیار ہوئی۔بیرون ملک ’’را‘‘کے سلیپنگ سیل متحرک کئے گئے اور اس جارحانہ منصوبے پر کام شروع کردیا گیا۔کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجر اور لاہور میں پرم جیت سنگھ پنوار کو قتل کرکے سکھ برادری کے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان میں جہاد کشمیر سے کسی نہ کسی انداز میں وابستہ رہنے والی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا۔سید خالد رضا جو کسی زمانے میں البدر مجاہدین میں شامل رہے اور طویل عرصہ سے ان معاملات سے کنارہ کش ہوکر شعبہ تعلیم میں خدمات سرانجام دے رہے تھے ،انہیں کراچی میں قتل کردیا گیا۔اسی طرح بشیر احمد عرف پیر امتیاز عالم جو ماضی میں حزب المجاہدین میں فعال ہوا کرتے تھے ،انہیں راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔راولا کوٹ کی مسجد میں صبح کی نماز کی ادائیگی کے بعدمقبوضہ کشمیر کے زیر انتظام ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے محمد ریاض عرف ابو قاسم کو فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔زاہد اخوند المعروف ظہور مستری کو سیالکوٹ میں قتل کردیا گیا۔پے درپے ایک ہی انداز میں ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات سے اندازہ تو ہورہا تھا کہ ڈور کہاں سے ہلائی جارہی ہے لیکن اب بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور برطانوی اخبار’’گارجین‘‘ کی رپورٹ سے باضابطہ طور پر معلوم ہوگیا ہے کہ یہ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘کی ہی کارستانیاں ہیں۔
برطانوی اخبار کی رپورٹ میںبھارتی خفیہ ادارے کے دو عہدیداروں کے حوالے سے تصدیق کی گئی ہے کہ یہ جارحانہ پالیسی وزیراعظم کے دفتر میں تیار کی گئی۔متحدہ عرب امارات میں ’’را‘‘کے سلیپنگ سیلز کو متحرک کیا گیا۔نیپال ،مالدیپ اورموریشس میں کئی خفیہ اجلاس ہوئے۔بڑے پیمانے پر ریکروٹمنٹ کی گئی اور فیصلہ ہوا کہ ’’را‘‘کے ہینڈلرز متحدہ عرب امارات میں بیٹھ کر مقامی اور افغان کرائےکے قاتلوں کے ذریعے مطلوب افراد کو نشانہ بنائیں۔’’را‘‘کی ایک خاتون ہینڈلر جس نے زاہد اخوند المعروف ظہور مستری کی لوکیشن خریدی ،اس نے بعد ازاں نیویارک پوسٹ کی نمائندہ بن کر ظہور مستری کو ٹیلیفون کیا اور تصدیق کی کہ یہ وہی شخص ہے جس کی ’’را‘‘کو تلاش ہے۔متحدہ عرب امارات میںمعمولی تنخواہ پر کام کررہے شاہد لطیف نامی ایک نوجوان کو 1.5ملین روپے ادا کرکے ریکی کروائی گئی اور پھر اسے 15ملین روپے معاوضہ اور متحدہ عرب امارات میں کیٹرنگ کمپنی بنا کر دینے کا وعدہ کرکے ظہور مستری کو قتل کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ہدایات کے مطابق اس 20سالہ لڑکے نے سیالکوٹ میں ظہور مستری کو مار ڈالامگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسے گرفتار کرلیا اور سہانے مستقبل کے خواب ادھورے رہ گئے۔برطانوی اخبار’’گارجین‘‘کے مطابق بھارتی خفیہ ادارہ ’’را‘‘اب تک کم ازکم 20افراد کو پاکستان میں نشانہ بنا چکا ہے۔جب اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سے ردعمل جاننے کیلئے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نہ صرف اس رپورٹ کی تصدیق کردی بلکہ اپنے جارحانہ عزائم کا بھی کھل کر اظہار کیا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت جہاں آرمی چیف یاخفیہ ادارے ’’را‘‘کے سر براہ کو مدت ملازمت میں توسیع دینے کی روایت نہیں رہی ،وہاں اس جارحانہ مشن پر کام کررہے ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (RAW)کے سربراہ سمنت کمار گوئل کو دو بار ایکسٹینشن دی گئی۔جون 2019ء میں تعیناتی کے بعد انہوں نے دوسالہ مدت ملازمت مکمل ہونے پر جون 2021ء میں ریٹائر ہونا تھا تو انہیں ایک سال کی ایکسٹینشن دیدی گئی اور پھر جب جون 2022ء میں ان کی ریٹائرمنٹ کا موقع آیا تو انہیں مزید ایک سال کی توسیع دیدی گئی۔جون 2023ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد اب سمنت کمار گوئل کو ’’Z‘‘کیٹیگری سکیورٹی دی گئی ہے جو بھارت میں وزیراعظم اور صدر مملکت کے بعد فراہم کی جانے والی تیسری سطح کی ہائی لیول سکیورٹی سمجھی جاتی ہے ۔زیڈ لیول سکیورٹی کے تحت مذکورہ شخص کی حفاظت پر 20کمانڈوز تعینات کئے جاتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ سمنت کمار گوئل کی ریٹائرمنٹ کے بعدان کے ماتحت بیرون ملک جارحانہ کارروائیوں کے نگران ڈائریکٹر آپریشز روی سنہا کو ’’را‘‘کا نیا چیف تعینات کیا گیا ہے تاکہ ان پالیسیوں کے تسلسل کا سلسلہ جاری رہے۔
اگرچہ امریکہ اورکینیڈا کی حکومتوں کی طرف سے ان کی سرزمین پر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد ردعمل سامنے آنے کے بعد وقتی طور پر یہ کارروائیاں روک دی گئی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سب سےبڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کو اس طرح کی ریاستی دہشتگردی پر جواب دہ نہیں ہونا چاہئے؟جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا،وہ کسی قسم کی دہشتگردی میں ملوث نہیں تھے ،اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے یا اس سے بھی کنارہ کش ہوکر معمول کی زندگی گزار رہے تھے اور پھر اگر ’’را‘‘کی دیکھا دیکھی ،دیگر ممالک کے خفیہ اداروں نے بھی ہٹ لسٹ بنا کر اس پر عملدرآمد شروع کردیا تو کیا ہوگا؟یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے۔
واپس کریں