دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ملک جرائم کے طوفانوں کی زد میں
شکیل انجم
شکیل انجم
جب ریاست حکومت وقت کی غلامی قبول کر لے۔۔ جب قانون نافذ کرنے اداروں کے سربراہ انتظامی حاکموں کے مقرر کئے گئے معیار کو پسند نا پسند کی بنیاد پر لگائے جائیں۔۔جب پولیس کے اعلی افیسرز صرف منصب کے حصول کے لئے انتظامی حاکم کے گھٹنے چھو کر اپنی وردی کی حرمت کو سرعام نیلام کریں اور پوری فورس کی تضحیک کا باعث بنے ۔۔جب ایسے متنازعہ کردار کے حامل پولیس افیسر کو پوری فورس کی کمانڈ عطا کر دی جائے ۔۔تو معاشرے اور اس ملک میں رہنے والے سلامتی اور امن و امان کے ماحول میں زندگی جینے کی خواہش رکھنے والوں کے ساتھ وہی کچھ ہوتا جو اب ہم بھگت رہے ہیں۔۔لیکن ایسے غیر عوامی اور بدعنوان سیاستدانوں کے کھاتوں میں ذوالفقار چیمہ, فیصل شاہکار، اے ڈی خواجہ، احسان صادق، زبیر ہاشمی، بی۔اے۔ ناصر، عاصم گلزار، اشفاق احمد خان، وقارالدین سید اور ایسی طبیعت اور سوچ رکھنے والےافیسرز ناکارہ قرار دئیے جاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں وہ ایسے حکمرانوں کا کوئی غیر قانونی حکم ماننے سے انکار کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔۔ بدعنوان حکمران ایسے "ناپسندیدہ افیسرز" کو "خود کش بمبار" قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ ریاست کی بالادستی اور حرمت کے لئے ہر مشکل سے گزرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔۔لیکن غیر مہذب حکمرانوں کے نزدیک ایسے ایماندار پولیس افیسرز کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی کیونکہ منصب کے لئے اپنی عزت نفس قربان کرنے والے کئی پولیس افیسرز بدعنوان حکمرانوں کے ایک اشارے پر عزت و احترام قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔۔شائد یہ حکمران ناصر خان درانی کو بھول گئے ہوں جنہوں نے صوبہ خیبر پختون خواء میں پولیس سربراہ کی حیثیت سے پولیس اصلاحات کے ذریعے وہ کارنامے سرانجام دئیے جن مثال نہیں ملتی اور جس کی بنیاد پر تحریک انصاف نے دوبارہ جنرل الیکشنز میں کامیابی حاصل کی اور اسی ناصر خان درانی مرحوم نے مانیکا خاندان کی جانب سے پاکپتن کے ایک پولیس افیسر کی تضحیک کرنے پر وزیر اعظم عمران خان کے ایڈوائزر کے منصب سے یہ کہہ کر استعفا دے دیا تھا کہ مانیکا فیملی کی جانب سے قانون کی تضحیک برداشت نہیں کر سکتے۔۔

سیاسی انتشار اور اقتدار کی چھینا جھپٹی کے غیر اقدام کو تحفظ فراہم کرنے اور حکمرانوں کی حفاظت معمور ہو گئی اور عوام کو ڈاکؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔۔ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جسے امن کے گہوارہ قرار دے کر مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے۔۔مایوسی اور عدم تحفظ کے اس ماحول میں جب ملک میں امن و امان کی تنزلی کے نتیجے میں خوفناک حد تک بڑھنے والے جرائم کا ذمہ دار کون ہے۔۔؟ سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ، وفاقی حکومت، صوبائی حکومتیں، پولیس کی اعلی قیادت، عدالتیں، جیلیں، تھانے یا جرائم پیشہ گروہ۔۔؟؟ اس سوال کا جامع جواب اس لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ ہر ادارے نے نظام کی تباہی میں بھرپور حصہ ڈالا لیکن سیاستدانوں نے اقتدار کی ہوس میں ملک کو تباہی کے اس دہانے پر کھڑا کر دیا جہاں سے صحیح سلامت واپسی ممکن نہیں۔۔ایک نے بازو پر جعلی پٹی باندھ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور دوسرا ٹانگ پر پلستر چڑھا کر اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوششوں میں ہے۔۔اور جھوٹ کی ایسی غیر مہذب سیاست پر یقین رکھنے کو سندھ کی بلدیاتی انتخات کے نتائج دیکھنے کے بعد یہ یقین کر لینا چاہئے اب جھوٹ نہیں چلے۔۔ سیاسی اور معاشی بحران کے اس طوفان میں عوام کی دادرسی کی بجائے ان کے زخموں پر نمک پاشی کی سیاست سے اب انہیں فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔۔

عوام کی نگاہ میں صرف پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جو اپنے فرائض کی انجام دہی سے غافل ہے۔۔لیکن جرائم کے فروغ، پشت پناہی اور تحفظ پر بھرپور توجہ دیتا ہے۔۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض کا جرائم مافیا سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔۔ جبکہ جیلوں میں جرائم کے بڑے بڑے گروہ تشکیل پاتے ہیں اور ان گروہوں کے سرغنہ جرائم کا کاروبار جیل انتظامیہ تعاون سے جیل سے چلاتے ہیں۔۔
واپس کریں