شکیل انجم
سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ دہشتگردوں کا بڑا گروہ یہ کہتے ہوئے افغانستان سے پاکستان کی سرحد عبور کر رہا ہے کہ وہ جہاد کے لئے پاکستان جارہے ہیں۔یہ حسن اتفاق ہے یا طے شدہ منصوبہ کہ دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے واضح انداز میں دھمکی کے انداز میں اپنی خواہش یا منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسلام آباد پر ضرور یلغار کریں گے اور عمران خان کو جیل سے نکال کرلے جائیں گے، یہ عمران خان کی جانب سے اسلام آباد پر’’قبضہ‘‘کے منصوبے پر عملدرآمد کا اعلان تھا یا حکومت وقت یا اسٹبلشمنٹ کو وارننگ یا الٹی میٹم کی کوئی صورت ہے۔ریاست کے خلاف بغاوت کا مظاہرہ عمران خان کی قیادت میں’’بلا خوف ورعایت‘‘ کئی بار کیا جا چکا ہے۔کیونکہ عوام کو ریاست کے خلاف صف آرا کرنا ہی پارٹی کا ایجنڈا اور عمران خان کا مشن ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں اپنی رپورٹوں میں عندیہ دے چکی ہیں کہ اقتدار پر قبضہ کرنے اور اپنے ایجنڈے یا مشن کی تکمیل کے لئے عمران خان کسی بھی حد تک جاسکتے ہیںجس کیلئے اس’’ مذموم مشن‘‘کی تکمیل کے لئے فوج سے’’مذاکرات‘‘ کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔یہ وہی فوج ہے جسے عمران خان کی’’سیاسی بصیرت‘‘ کے مطابق دنیا بھر میں بے توقیر کیا گیا، آئی۔ایس۔آئی کے اعلیٰ افسروں کو ’’پاکستان دشمن ممالک‘‘ کی خواہش پر دہشتگرد ثابت کرنے کے لئے ان کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات درج کرانے کی کوششیں کی گئیں، یہ وہی فوج ہے جنہیں طبقات میں تقسیم کرنے کے لئے سعئ لاحاصل کی گئیں اور عوام میں فوج اور فوجی قیادت کے خلاف بھارتی سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی بھرپور معاونت سے نفرتیں پیدا کرنے کے لئے عالمی سطح پرمہم چلائی گئی۔یہ وہی فوج ہے جسے 9 مئی کو سرحد پار دشمنوں سے مقابلہ نہیں بلکہ اندرون ملک پاکستانی بہروپ میں ان پاکستان دشمنوں سے تھا جو ملک دشمنوں کے ایجنڈے پر یہ ثابت کرنا چاہتا تھا پاک فوج اور اس کی ایجنسیاں جنگ کے قابل نہیں۔یہ وہی فوج ہے جس کے اس جی-ایچ-کیو پر یلغار کرکے فوج کی حرمت اور حمیت کو للکارا گیا جس کے سامنے سے کوئی ملک دشمن تصور بھی نہیں کرسکتا۔یہ وہی فوج ہے جس کے کورکمانڈر ہاؤس کو تہیہ و بالا کیا گیا اور اسے نذر آتش کرکے ملک کی سلامتی کو چیلنج کیا گیا۔جس کے سربراہ سے آج تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت ملاقات کی بھیک مانگ رہی ہے لیکن فوجی قیادت ان کی پیشکش کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھتی۔تحریک انصاف کی قیادت نے عمران خان کوجیل سے نکالنےکے دونوں راستے ایک ساتھ کھول دیئے ہیں جس میں پی-ٹی-آئی کے لیڈروں کو فوج کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے منت سماجت اور معافی تلافی کے ذریعے رہائی کی کوئی راہ نکالنے کی ذمہ داری سونپی ہے اور دوسرے کو اسلام آباد پر یلغار کرکے طاقت کے زور پر انہیں جیل سے نکالنے کا ٹاسک دیا ہے لیکن دونوں راستے عمران خان کو بند اور اندھیری گلیوں میں لے جائیں گے۔پارٹی تقسیم کا شکار ہےاور چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بٹی ہے،لیڈروں کی بھرمار ہے، ایک لیڈر کوئی بیان داغتا ہے دوسرا شدید الفاظ میں تردید کردیتا ہے۔ پارٹی کا سنجیدہ کارکن تقسیم کی تمام تر ذمہ داری پارٹی قائد پر عائد کرتا ہے کہ پارٹی قائد پارٹی ڈسپلن پر توجہ نہیں دیتے کیونکہ وہ اپنے ریاست دشمن ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔شہریار آفریدی نے فوج سے مذاکرات کی بات کی تو پی-ٹی-آئی کے ترجمان رؤف حسن نے ان کے بیان کو ذاتی رائے قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔یہ بھی یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ فوج کو مذاکرات کے نام پر انگیج کرکے دہشتگردی کے ذریعے’’پاکستان فتح‘‘ کرنے کے خواب کی تعبیر کا آغاز اور عمران خان کے’’ مشن‘‘ کی تکمیل ہونے جارہی ہے۔کور کمانڈر ہاؤس نذر آتش کرنے والوں کو یہ علم نہیں تھا کہ سیاست میں روپ بہروپ کا کھیل زیادہ عرصہ نہیں چلتا اور نہ رویے اور روپ بدل کر’’مقاصد‘‘ کا حصول ممکن ہو سکتا ہے-کل کورکمانڈر ہاؤس کو تاراج کرنے والے، آج صوبائی کابینہ کا اجلاس بھی پشاور کے کورکمانڈر ہاؤس میں منعقد کرنے پر مجبور ہیں لیکن قیادت اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور یہ رویہ ہی اس پارٹی کے زوال اور تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔پی-ٹی-آئی کی بنیادی برائیوں میں شدت سے محسوس کی جانے والی کمی ہے کہ لیڈرشپ نے میدان سیاست میں انفرادی یا اجتماعی طورسیاسی ساکھ قائم کرنے پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے ان کی سیاست کی عمارت کمزور ستونوں پر کھڑی ہے اور یہ عمارت’’جتنے منہ اتنی سیاسی قلابازیاں‘‘کی کھوکھلی بنیادوں پر قائم ہےکیونکہ کہ ان کا ہر لیڈر ہر روز نئی’’قلابازی‘‘ متعارف کراتا لیکن اسی پارٹی کا کوئی قدآور لیڈر پہلے کی قلابازی کی تردید کرکے اپنی’’نئی قلابازی‘‘ مارکیٹ کردیتا ہے۔آج کل یہی ان کی سیاست ہے۔
واپس کریں