شکیل انجم
کہتے ہیں عمران خان نے اپنی ساری زندگی میں ایسا کون ساایسا کام کیا جس کے عوض قوم وملک کی تقدیر ایک ایسےعام کھلاڑی کو سونپ دی گئی جس کا مرغی، انڈوں اور کٹوں کے علاوہ کوئی وژن نہیں تھا۔کیری پیکر معاہدہ سے 9مئی کو ملک اور اس کی سلامتی کے اداروں کے خلاف عملی بغاوت تک 27سال کے دوران عمران خان کا ایسا کون سا ’’کارنامہ‘‘ ہے جو پاکستان کے وقار، عزت اور تعمیر کی بنیاد بنا ہو۔اس کے جواب میں آئیڈیلزم کا شکار ہو کر اندھی تقلید کرنے والے لوگ یہ حقیقت تسلیم کئے بغیر 1992کے ورلڈ کپ کا حوالہ دیتے ہیں لیکن اس کا ذکر نہیں کرتے کہ اس میں عمران خان کی ذاتی کارکردگی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا کیونکہ پورے ٹورنامنٹ میں عمران خان کی کارکردگی صفر کے آس پاس تھی، ابتداء سے بری طرح ناکامیوں کا شکار ہونے کے والی ٹیم کو جاوید میانداد، وسیم اکرم، انضمام الحق، وقار یونس، عامر سہیل، معین خان، سکندر بخت اور عاقب جاوید جیسے کئی کھلاڑی تھے جنہوں اپنے ذاتی مفادات کےلئے کرکٹ کےاس عالمی مقابلے میں شرکت نہیں بلکہ پاکستان کی سربلندی اور وقار میں اضافے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر قوم و ملک آبرو میں اضافہ کیا۔عمران خان کو ہر حال میں ’’ہیرو‘‘ ماننے اور دنیا بھر میں اس کی ’’عظمت‘‘کی تشہیر کرنے والے سیاسی نابالغوں کو کھیل کے میدانوں میں کبھی وہ عظیم ہیرو نظر نہیں آئے جنہوں نے دنیا بھر میں کھیلوں کے میدانوں کو تسخیر کیا اور ملک کا وقار سربلند کیا۔
اگر کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنا ہی وزیر اعظم بننے کا معیار ہے توکرکٹ کا ورلڈ کپ تو یونس خان نے بھی جیتا تھا،اسے بھی وزیراعظم کا منصب ملنا چاہیئے جس میں سرفراز احمد سینئر وزیر کی حیثیت میں کابینہ میں شامل ہوں ۔ ورلڈ چیمپئین شپ ہی اگر اعلیٰ حکومتی مناصب کا معیار ہے تو عالمی سکواش چیمپئینز جہانگیر خان اور جان شیر خان جو صحیح معنوں میں قوم کا فخر ہیں، جو سکواش کی دنیا پر راج کرتے رہے اور پانچ پانچ چھ چھ بار سکواش کے عالمی چیمپئین رہے اور ہمیشہ ناقابل تسخیر رہے، وہ صرف ملک وقوم عزت اور آبرو کے لئے میدان میں اترتے تھے اور کامیاب و کامران واپس لوٹتے تھے۔ وہ ہمیشہ قوم کے دل و دماغ پر راج کرتے رہیں گے ۔
اس کے علاوہ ہاکی کی دنیا میں تادیر ناقابل تسخیر رہنے والے شہناز شیخ،حنیف خان،سمیع اللہ، کلیم اللہ،حسن سردار، رشیدالحسن،منظور جونئیر، اختر رسول،صفدر عباس اور سلیم شیروانی سمیت ہاکی کےسیکڑوں کھلاڑی تاحیات پاکستانی قوم کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے جنہوں نے ہاکی کی تاریخ میں پاکستان کا نام سربلند رکھالیکن کسی باوقار پاکستانی کھلاڑی نے اس عالمی کامیابی کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال نہیں کیا جبکہ عمران خان نے بڑے تکبر کے ساتھ اس کامیابی کو’’میری کامیابی‘‘ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے علاوہ ساری دنیا میں تاثر قائم کیا یہ کامیابی صرف ان کی وجہ سے حاصل ہوئی جس کے بعد انہوں نے اس کامیابی کو ’’کیش‘‘کرانے کے لئے بھارت سمیت دنیا بھر میں کینسر ہسپتال کے نام پر اربوں روپے اکٹھے کئے اور تب بھی تسلی نہیں ہوئی تو قوم کو مزید گمراہ کرنے کے لئے سیاست کا ’’کاروبار‘‘ شروع کردیا اوراپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت ملک کو تنزلی کی دلدل کے دہانے پر پہنچا دیا جہاں واپسی اور معیشت کی بحالی کی ایک مدھم کرن ملک کی مکمل تباہی کا اشارہ تھی۔
اب جب اقتدار میں لانے والوں کو اس کھلاڑی کے ملک دشمن عزائم کا علم ہوا تو وہی کچھ ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔وقت کے ساتھ جب بلیک میلنگ کا رویہ مدھم ہوا اور قریبی’’رفقاء‘‘ جو پہلے ہی عمران خان کے ملک دشمن اعمال کے خلاف تھے لیکن تنقید یا مخالفت کی جرات نہیں رکھتے تھے، کنارہ کشی اختیار کرنے لگے اور دنوں، ہفتوں، مہینوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں پنجروں میں قید بھوکے پیاسے پرندوں کی طرح اڑ گئے اور اپنے اپنے گھانسلے بنا کر ان میں بسنے لگے اور پھر انہی قریبی ’’رفقاء‘‘ کے ذریعے قوم کو بے وقوف بنانے کے لئے کی جانے والی شعبدہ بازیاں بھی کھل کر سامنے آنے لگیں۔عمران خان کے دور حکمرانی میں ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف-آئی-اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے متعلقہ حکام کے روبرو پیش ہو کر سائفر کی سازش کے علاوہ القادر ٹرسٹ اور برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) کی جانب سے پاکستان کے خزانے میں بھیجی جانے والی 190ملین پاؤنڈ کی بھاری رقم کے غبن یا ہیراپھیری کے حوالے تمام راز فاش کردئیے۔ اعظم خان نے دعویٰ کیا کہ سائفر کے ڈرامہ میں شاہ محمود قریشی او اسدعمر پوری طرح ملوث تھے اور وہ اتنے ہی گناہگار ہو سکتے جتنے عمران خان تھے جبکہ القادر ٹرسٹ کے سکیینڈل اور 190ملین پاؤنڈ کی سرکاری خزانے میں منتقلی کی بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں اور اس کے غیر قانونی استعمال اور کابینہ کو NCAکے خط کی بند لفافے میں ہی منظوری کے پیچھے عمران خان اور شہزاد اکبر کی مشترکہ ذمہ داری قرار دیا۔آگے چل کر کیا ہوتا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں البتہ ناقدین اس ضمن سپریم کورٹ کے کردار کو انصاف کی بنیاد قرار دے رہے ہیں۔
واپس کریں