وزیراعظم محمد شہباز شریف نے رواں ہفتے کے آغاز میں حلف اٹھانے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھا ہے جس میں انھیں عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی گئی ہے اور امریکا کی نئی انتظامیہ کے ساتھ مثبت تعلقات کے خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے امریکی صدر کو جو خط لکھا گیا ہے یہ ویسے تو ایک معمول کی کارروائی ہے لیکن پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تاریخ اور خطے کے حالات کو سامنے رکھا جائے تو اس خط کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد وہاں طالبان کی عبوری حکومت کے زیر انتظام جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کے اثرات بالعموم پورے خطے اور بالخصوص پاکستان پر پڑ رہے ہیں۔ بار ہا افغان طالبان کو اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے زیر انتظام علاقوں میں موجود تخریب کار اور دہشت گرد عناصر جو کارروائیاں کر رہے ہیں ان سے نہ صرف بین الاقوامی معاملات بگڑ رہے ہیں بلکہ پورے خطے کا امن تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ نئی امریکی انتظامیہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرے گی۔ اسی نوعیت کا ایک اور نہایت اہم مسئلہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں جو خطے کے استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ امریکا کا بھارت کی طرف جھکاؤ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اس کام کے لیے پورے خطے کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا جائے۔ نئی امریکی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ بھارت کو اس بات کا احساس دلائے کہ خطے میں طاقت کا عدم توازن پیدا کرنے کی کوششیں صرف دوسرے ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی منفی نتائج کی حامل ہوں گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی کابینہ کو اس بات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ پاکستان نے کئی اہم مواقع پر امریکا کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ قطع تعلق کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
واپس کریں