حفیظ اللہ نیازی
’’ہم کے ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد‘‘، سقوط مشرقی پاکستان ایک کوہ غم، سنگین سیاسی بحران کا نتیجہ تھا۔ کیا مملکت ملتے جلتے ویسے ہی سیاسی بحران میں جکڑی ہے۔ ملک کے درخشاں مستقبل کا دار و مدار سیاسی استحکام سے جُڑا، سیاسی استحکام کا خانہ خالی ہے۔ دُہرائوں گا، وطن عزیز کا گھمبیر سیاسی بحران محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ شامت اعمال! بُرے اعمال کے نتائج بھگتنے ہونگے۔
آج تک ریاست پاکستان کی طرف سے سانحہ مشرقی پاکستان کے نہ تو حقائق، نہ ہی تفصیلات بتائی گئیں، چنانچہ خود احتسابی کا نظام کیونکر بن پاتا۔ اگرچہ سانحہ مشرقی پاکستان بارے، ایک جنرل، ایک لیفٹیننٹ جنرل، 4 میجر جنرل اور 2 بریگیڈئرز نے اپنے اپنے تجربات اور مشاہدات پر کتابیں لکھیں مگر عوامل اور حقائق پر خصوصی توجہ نہیں دی گئی صرف جاری و ساری عوامل اور حقائق کا احاطہ ہی ہو سکا۔ تمام کتابیں کم وبیش ذاتی وضاحتیں ( SELF-JUSTIFICATION & EXPLANATION ) تک محدود رہیں ۔
میجر جنرل خادم راجہ کی کتاب
"A STRANGER IN MY OWN COUNRTY " ، اس لحاظ سے منفرد کہ بحرانِ مشرقی پاکستان کے بگولہ بننے کی کیفیت سے راجہ صاحب عملاً گزرے۔ بطور GOC 1970الیکشن کا انتظام و ترتیب دیا، بعد ازاں مارچ 1971کے آپریشن (SEARCHLIGHT) کی تزئین و آرائش کی نگرانی بھی کی۔ انکے دوسرے ساتھی میجر جنرل راؤ فرمان علی بھی شریک کار، تینوں نے لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان کی قیادت میں یک جان ہوکر کام کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان آپریشن کے حق میں نہ تھے، آپریشن سے ہفتوں پہلے مستعفی ہو گئے۔ اس وقت کے عسکری اتار چڑھاؤ اور سیاسی واقعات پر میجر جنرل خادم راجہ کی گہری نظر تھی۔ دونوں محاذوں پر جاں فشانی سے سینہ سپر رہے۔ الیکشن 1970ءسے ایک سال پہلے جو بھیانک نتائج بتاتے رہے، بدقسمتی سے وہی بھگتنا پڑے۔ بقول خادم راجہ اس وقت کی قیادت کسی طور انکی گزارشات پر کان دھرنے کو تیار نہ تھی۔ میجر جنرل خادم راجہ کی رائے میں ’’شیخ مجیب الرحمن کی عرصہ سے اولین ترجیح‘‘ بنگالی قومیتی سیاست رہی۔ 60کی دہائی میں ’’خود مختار بنگالی ریاست‘‘ کا روپ اختیار کر چکی تھی۔ اگرتلہ سازش ایک مسلمہ حقیقت تھی ’’حسینہ واجد کی پارلیمنٹ میں فخر سے تصدیق ہوئی‘‘۔ ایوب خان حکومت نے اگرتلہ سازش پکڑی اور شیخ مجیب کو حقی سچی گرفتار کیا۔ اپنا اقتدار بچانے کیلئے سیاسی دباؤ پر رہا کیا اور ایک غدار سے مذاکرات کا ایسے وقت گناہ کیا جب چڑیاں کھیت چُگ چکی تھیں۔ بقول جنرل خادم راجہ، ایوب خان اپنی حکومت بچانے اور اقتدار کو دوام دینے کی تگ و دو میں سیاسی احتجاجی تحریک کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں تھے۔ جو سیاسی اقدامات کر رہے تھے شیخ مجیب کے ایجنڈے کو تقویت مل رہی تھی۔ بقول خادم راجہ ’’اگرچہ ایوب خان نے1962ءاسمبلی انتخابات اور پھر 1965ء صدارتی انتخابات جیتنے میں غیر قانونی ہتھکنڈے بروئے کار لائے، عوام النّاس میں کسی حد تک سپورٹ تھی۔ 1968/69ء ایک طرف مظاہرے، دوسری طرف سپورٹ ختم ہو چکی تھی‘ ۔
جنرل راجہ نے چند دلچسپ واقعات درج کئے۔ ’’نومبر 1968ءمیں ایوب خان کیخلاف راولپنڈی پولی ٹیکنیک سے اُٹھنے والی احتجاجی تحریک مغربی پاکستان کے کونے کونے میں پھیل چکی تھی۔ انہی دنوں مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالمنعم خان ڈھاکہ میں آرمی وار کورس افیئرز سے خطاب کرنے آئے۔ تقریر کا حاصل کلام،مشرقی پاکستان میں مثالی امن، امان، سکون انکی بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ تقریر کے چند ہفتہ بعد مشرقی پاکستان بطور شدید مزاحمتی سامنے اور پھرسال بعد خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔ گورنر ’’آنیوالے طوفان‘‘ سے یکسر نابلد تھے جبکہ زمینی حقائق کی سنگینی کسی اندھے کو بھی نظر آرہی تھی۔ مغربی پاکستان میں پاکستان خصوصاً پنجاب کیخلاف نفرت حقارت ببانگ دہل اظہار یہ بن چکا تھا۔ یقیناً سب کچھ دہائی کی محنت شاقہ سے ممکن بنا۔ بنگالی ریاستی اداروں سے صدقِ دل سے نفرت اور انکو غیرملکی قابض سمجھتے تھے۔
’’جنرل یحییٰ کے ذاتی دوست میجر جنرل عمر (چیف آف سکیورٹی) دسمبر 1969میں ڈھاکہ آئے، انکو بغیر الفاظ چبائے بریفنگ دی، الیکشن 1970بمطابق میری ASSESMENT ، شیخ مجیب 75فیصد نشستیں جیت لے گا۔ اگلے سال کی انتخابی مہم میں مقامی بنگالیوں کے جذبات کی آگ سے کھیلے گا، مزید برانگیختہ رکھے گی۔ مذاکرات کی آڑ میں شیخ مجیب کو فروری 1969میں رہا کیا تو اگرتلہ سازش کیس سے ہوا نکل گئی۔ اب 6نکات پر اپنی انتخابی مہم استوار کر نے میں مگن ہے۔ اگلے انتخابات کے بعد اقتدار ہر حالت میں شیخ مجیب کو منتقل کرنا ہو گا، وگرنہ بھیانک نتائج بھگتنا ہونگے۔ شیخ مجیب کا اُبھرتا موجودہ بیانیہ ایک پاکستان کی نفی ہے۔ جھوٹ سچ کی غلطیوں، محنت مشقت سے بنگالیوں کو انکی محرومیوں سے متعارف کروا چکا ہے۔ وہ دلجمعی سے آزاد بنگلہ دیش کے قیام کا پروپیگنڈا عام کر رہا ہے اور اسکے لئے وہ FICTITIOUS حقائق سے لوگوں کا ذہن مسحور کر چکا ہے‘‘۔
جنرل خادم نے جو کچھ میجر جنرل عمر کے گوش گزار کیا، اسی پیرائے میں گاہے گاہے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یحییٰ خان کو زمینی حقائق سے آگاہ رکھنے کی تگ و دو بھی کی۔ بقول جنرل راجہ! ’’بحرانی حالات کی شدت کی بڑی وجہ، جنرل یحییٰ کے اردگرد جرنیلوں نے جنرل کو سیاسی اتار چڑھاؤ سے بے خبر رکھا ہوا تھا۔ سب اچھا کی رپورٹ تھی‘‘۔ جب بھی سیاست مارشل لا اور جابر حکمران کے نیچے پروان چڑھتی ہے تو دو تلخ حقیقتیں راسخ رہتی ہیں:1 - سیاسی انجینئرنگ، سیاسی فیصلے اور جوڑ توڑبفرض محال الٹے پڑ جائیں تو ان پر کبھی گرفت نہیں ہو پاتی۔ 2۔ سیاسی حالات کی سنگینی اور ابتری کی اطلاعات کا نیچے سے اوپر کا سفر ناممکن رہتا ہے کہ قیادت پر گراں گزرے گا۔ چنانچہ قیادت کو حقی سچی صورتحال سے بے بہرہ رکھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں جنرل یعقوب کے ایسے کئی مراسلے جنرل یحییٰ تک نہ پہنچ پائے۔ ایک موقع پر میجر جنرل خادم راجہ کو خصوصی جہاز پر راولپنڈی بھیجا گیا۔ میجر جنرل راجہ کی یحییٰ خان تک رسائی میں دست راست لیفٹیننٹ جنرل پیرزادہ رکاوٹ بنے۔ جنرل راجہ کی کتاب کا خلاصہ ناممکن ہے، حاصل کلام بیان کردہ دو تلخ حقیقتیں مع سیاسی سپورٹ کا موجود نہ ہونا روح فرسا رہتا ہے۔ پتہ کرنا ہے، آج کے حالات سے مطابقت تو نہیں ہے۔ کاش سیاہ و سپید کے مالک جنرل راجہ کی کتاب ازبر رکھتے اور لائحہ عمل تشکیل دیتے۔ اس ملک میں مجھے اجنبی نہیں رہنا۔
واپس کریں