دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مارو یا مر جاؤ
حفیظ اللہ نیازی
حفیظ اللہ نیازی
حکم حاکم ! مارویا مر جاؤ، بھلا کون؟ تحریک انصاف کے متعلقین۔ ’’دائروں کا سفر‘‘، عمران خان اپنے چاہنے ماننے والوں کیلئے کیا منتخب کر چکے ہیں؟ عمران خان دھرنوں، لانگ مارچ کا وسیع و عریض ناکام تجربہ رکھتے ہیں۔ ذہنی بالیدگی کی عدم دستیابی یکے بعد دیگرے احمقانہ فیصلوں پر اُکساتی ہے۔ پچھلے گیارہ سال سے عمران خان کی ہر ایسی مہم جوئی پر شروعات سے قبل ہی ناکامی ثبت تھی۔ ہر ناکامی کے بعد کندھے جھٹکے، نئی مہم جوئی کی تیاری، پنپتی سیاست کو ہلکان رکھنے میں عمران خان منفرد ریکارڈ رکھتے ہیں۔ کیسے مان لوں 9دن بعد 24نومبر کا لانگ مارچ، لاک ڈاؤن یا دھرنا کیونکر اور کیسے کامیاب ہو گا؟
نپی تُلی رائے، پچھلے گیارہ سال سے لانگ مارچ، ریلیاں، لاک ڈاؤن کو اسٹیبلشمنٹ نے جلا بخشے رکھی۔ جی ہاں! ’’صفحہ پھٹنے‘‘2022 کے بعد بھی ریلیاں، لانگ مارچ، جلسے، احتجاج، اسٹیبلشمنٹ ہی کی اسکیم اور پلان روبہ عمل رہے۔ اچنبھے کی بات نہیں کہ کچھ قائدین کے بیانات، تقاریر بیشتر کے اسکرپٹ، ’’طاقت معاملہ خانہ‘‘ کے عین مطابق تھے۔
عمران خان کے ماضی کے جلسوں دھرنوں ریلیوں، لانگ مارچ کا سرسری جائزہ لیں۔ مت بھولیں کہ ہر بار عمران خان نے بھرپور تیاری کی، تقاریر، جلسے جلوس، انٹرویو سے بھڑکایا اُکسایا، بنفس نفیس قیادت کی اور ہزیمت آمیز ناکامی دیکھی۔ 14 اگست 2014ءکا ’’آزادی مارچ‘‘ ( موصوف گیارہ سال قبل بھی آزادی کیلئے سینہ سپر تھے)، قافلہ آزادی لاہور سے نکلا تو دل ٹوٹ چکا تھا کہ پیچھے مڑ کر دیکھا تو بمشکل دو ہزار نفوس شریک سفر تھے۔ مت بھولیں کہ عسکری قیادت دامے دُرمے سُخنے ساتھ شریک بلکہ تحریک انصاف سے زیادہ مستعد و متحرک تھی۔ روزنامہ جنگ، 16اگست 2014 کا کالم، ’’تحریک انصاف بند گلی میں‘‘، تفصیل سے بتایا کہ ’’لانگ مارچ ناکام رہےگا‘‘، وہی ہوا جو کہا تھا۔ بظاہر 126روزہ دھرنے سے جان چھڑوانا مشکل ہو چکی تھی۔ ایک وقت آیا کہ قومی ہیرو دھرنے کے آخری ماہ تن تنہا کنٹینر پر ’’پارٹ ٹائم‘‘ موجود تھا کہ مشاغل نے ساتھ ساتھ مشغول کر رکھا تھا۔ بالفرض محال سانحہ APS 2014 نہ ہوتا تو عین ممکن کہ نواز شریف حکومت ’’قومی رہنما‘‘ کو دو سال ڈی چوک پر بٹھائے رکھتی، دھرنے کا عالمی ریکارڈ بننا تھا۔ جب جذبہ جنوں ہو تو ہمت کیوں ہارنا، 2016میں بھائی لوگوں کے پُرزور اسرار پر پانامہ کی آڑ میں پھر سے ملک گیر جلسے، ملک بند رکھنے کے جتن، بالآخر یکم نومبر 2016کو اسلام آباد پر چڑھائی کر دی۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ پوری طاقت کیساتھ، اسلام آباد پرچڑھائی، ناکامی نے بری طرح منہ چڑایا۔
چند دلچسپ واقعات بھی، وزیر باتدبیر علی امین گنڈا پور ’’شہد کا ذخیرہ‘‘ گاڑی میں چھوڑ کر سرپٹ چیئرمین ہاؤس کی طرف دوڑے جہاں بمشکل اَماں ملی، شہد ذخیرہ کے مقدمے آج بھی بھگت رہے ہیں۔ اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان ناکامی کا پلانB تیار کر رکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج آصف سعید کھوسہ نے پیغام بھجوایا کہ ناکامی ملی تو کیا ہوا، گھبرانا نہیں، ہم سوموٹو نوٹس لیکر وزیراعظموں کو گھر بھجوانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ عوام نے جناب کو مسترد کر دیا تو کیا، ہماری عدالت میں درخواست لے آؤ، ہم یہ فریضہ سرانجام دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ 2/3 سال کی تگ و دو کے بعد ایک صفحہ اقتدار نصیب ہواتو دھرنوں ریلیوں سے افاقہ ملا، بالآخر صفحہ پھٹ گیا۔ جو لائے تھے بالآخر اُنہوں نے ہی دُھتکار دیا تو پھرجلسہ جلوس، ریلیاں، دھرنے یاد آئے۔ اسٹیبلشمنٹ بصورت جنرل فیض حمید پس پشت موجود رہی۔ بندیال عدالت، اسٹیبلشمنٹ پلان پر عمل پیرا، جلسے جلوسوں، ریلیوں کی پشت پناہی میں مستعد رہی۔ کئی کالموں میں بتا چکا ہوں کہ جنرل باجوہ نے بذریعہ جنرل فیض عمران خان سے جلسے جلوس ریلیاں کروا کے شہباز حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا تھا کہ اسکی روشنی میں غیر معینہ مدت کیلئے نگران حکومت کا قیام ہو سکے اور جنرل باجوہ کا تاحیات آرمی چیف رہنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔اس پروجیکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کُلی ذمہ داری جنرل فیض حمید کو تفویض کر دی گئی، باوجود یہ کہ جنرل فیض ISI سے سبکدوش ہو چکے تھے، پروجیکٹ کیلئے وسائل موجود تھے۔ ثاقب نثار تا بندیال سپریم کورٹس، ہائیکورٹس، میڈیا میں بھائی لوگوں کا اثاثہ سب کچھ فیض کے رحم و کرم پر، 10اپریل سے لیکر 25نومبر جنرل عاصم منیر کے نوٹیفکیشن تک، جہاں ملک کیساتھ کھلواڑ کی ایک داستان ِ الم رقم ضرور ہوئی۔ عمران کے جلسے جلوسوں کی شان، پرویز الٰہی کی شمولیت، میڈیا کی سہولت، اسٹیبلشمنٹ کے دم قدم سے موجود تھی۔
25 مئی کے لانگ مارچ سے قبل 50دنوں میں 40جلسے کئے کہ 30 لاکھ بندہ اسلام آباد لانا تھا۔ 26مئی 2022کو جب اسلام آباد پہنچے تو بمشکل تین ہزار بندہ نہیں تھا جبکہ حکومت پر دباؤ کیلئے 30ہزار کافی رہتا۔ لانگ مارچ دھرنے کا چوتھا دور، راولپنڈی GHQ پر چڑھائی تاکہ جنرل عاصم منیر کی ممکنہ تعیناتی رُکوائی جا سکے۔ عمران خان کی سیاست سیاہ دھبوں سے مزین، قاضی فائز عیسٰی کو سپریم کورٹ سے نکلوانے اور جنرل عاصم کی ممکنہ تعیناتی رُکوانے کیلئے ریاست کے اوپر چڑھائی، تاقیامت سیاہ حروف سے لکھے جانے ہیں۔ یکم نومبر اسلام آباد لانگ مارچ کا تڑکا لگانے کیلئے 23 اکتوبر کو ارشد شریف قتل ہوا۔ 3نومبر عمران خان پر حملہ، عملاً نیت مارشل لا لگانے کی تھی، ہر مد میں ناکامی رہی۔ 26نومبر کو عمران خان کی قیادت میں چند ہزار لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جب راولپنڈی پہنچا تو مری روڈ کی ایک سائیڈ پر بمشکل سما پایا۔ جنرل عاصم کے کمان سنبھالنے کے بعد عمران خان پہلی دفعہ اسٹیبلشمنٹ سپورٹ سے محروم ضرور ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ نے بذریعہ جنرل فیض ’’نئے بھیس‘‘میں عمران خان کی حرکات و سکنات کو کنٹرول میں رکھا۔
عمران خان اور تحریک انصاف کا جلسے جلوس، احتجاجوں کا سلسلہ اخلاص سے آج تک جاری ہے۔ اگرچہ جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد فیصلہ سازی عمران خان کے ناتواں سیاسی کندھوں پر، اسٹیبلشمنٹ PTI کی قیادت کی رگ رگ میں سرایت کر چکی ہے۔ فیصلہ سازی مکمل کنٹرول میں ہے۔ عمران خان سیاسی عقل سے عاری، پچھلے کئی مہینوں سے درجنوں احتجاج کروا کے اسٹیبلشمنٹ نے بھاپ نکالنی ہے۔ عمران خان سیاست تین حصوں میں بٹی ہے۔ سانحہ 9مئی ہوا (13مئی کو سینہ پھلائے کریڈٹ لیا)، اب کئی مہینوں سے جان چھڑوا رہے ہیں۔ پھر وہاں سے مایوس ہو کر سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹس کے کچھ ججز پر بھروسہ کیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم نے خطِ تنسیخ پھیر دی۔ ایک عرصہ سے ٹرمپ کی کامیابی سے اُمیدیں باندھ رکھی تھیں، ٹرمپ کارڈ موجود، اسکے استعمال سے پہلے ہی 24نومبر کو دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کی کال، کیا ہی اچھا ہوتا کہ کم از کم قیادت کا نسخہ تبدیل کرکے علیمہ خان کے حوالے کر دیتے۔
واپس کریں