حفیظ اللہ نیازی
مملکت خدادادِ اسلامیہ پر جھوٹ قابض، سچ بے بس ولاچار ہے۔ غیر معمولی اخلاقی گراوٹ بے لگام، معاشرہ سڑاند کی گرفت میں، دھوکہ، جھوٹ اور وسیع و عریض بددیانتی ڈیرے ڈال چکی۔ اخلاق اصول ضوابط اقدار تباہ حال، اخلاقی گراوٹ بے حساب، سماجی رویوں کی پستی لامحدود۔ باہمی بداعتمادی اور جھوٹ سوسائٹی کا جزو لاینفک بن چکے۔ منطقی نتیجہ! سماجی کج روی، غیر مساویانہ رویے، غربت جڑ پکڑ چکے ہیں۔ جرائم، کرپشن، بددیانتی، وطنی معاشرہ کی حقی سچی نمائندگی ہے۔ بدترین دور سے دوچار! ریاست کا استحکام، مستقبل، خوشحالی، نظم و نسق سب کچھ داؤ پر، قوموں، ملکوں کے عروج و زوال کی کہانی سیاسی استحکام و عدم استحکام کیساتھ چسپاں ہے۔ سیاسی استحکام عروج دیتا ہے جبکہ عدم استحکام میں مملکتیں تحلیل ہوتے دیکھی ہیں۔ اقتصادی بدحالی، معاشرتی گراوٹ، کرپشن، بددیانتی، جھوٹ، مکر وفریب، سیاسی عدم استحکام کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں اور پھر معاشرتی اقتصادی ڈھانچے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔
آج جن حالات سےنبرد آزماء، ایک دہائی کی محنت شاقہ، پچھلے دس سال کی کہانی جن کرداروں (جنرل باجوہ، عمران سرفہرست) کے طوفان بدتمیزی سے جڑی، مملکت انہی کے جھوٹ کے قبضہ میں ہے۔ انہی نے تو ہوس اقتدار میں ماردِ وطن کی عزت پامال کر رکھی ہے۔ آج ہم جہاں پہنچ چکے ہیں، نکلنے کا کوئی راستہ بھی؟ مایوسی کفر، ذات باری تعالیٰ سے کرم کی توقع ضرور، کیا مملکت کو بھیڑیوں کے چنگل سے نکالنے کی کوئی سبیل ہو پائیگی۔ مملکت سرتاپاء جھوٹ کی غلامی میں، عمران خان ہمراہ ناقابل تسخیر اور لاینحل سوشل میڈیا جھوٹ بریگیڈ کی یلغار ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان اپنے مفادات کیلئے جھوٹ کو اوڑھنا بچھونا بنا چکا۔ ماننے چاہنے والے جھوٹ کو ایمان کا حصہ بنا چکے۔ جھوٹ اور باہمی بد اعتمادی کی بیماری عرصہ دراز سے موجود، آج پوری قوم متعدی مرض کے شکنجے میں ہے۔ جدید تاریخ میںجن ہمہ گیر شخصیات نے ہماری معاشرت، مذہب، سیاست پر اچھے بُرے گہرے اثرات مرتب کیے، ایسوں کا نفسیاتی پس منظر اور ذہنی افزائش کا احاطہ میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ عمران خان کے ظہور سے پہلے جھوٹ، بطور موثر ہتھیار استعمال کرنے میں ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر جوزف گوئبلز کو کمال حاصل تھا۔ گوئبلز PERFECTION کی حد تک ایک مثالی افسانوی شخصیت تھا۔ جرمنی کی بدترین شکست پر 30اپریل 1945کو ہٹلر نے خود کشی کی تو گوئبلز نے بھی ایک دن بعد یکم مئی کو زہر کھا کر خود کشی کر لی۔ گوئبلز جھوٹ کا بے تاج بادشاہ تھا، جھوٹ کے بَل بوتے پر ایک دنیا ہلا دی۔ ہٹلر کو اقتدار پر ایسے بٹھایا کہ دیوتا کا مقام ملا۔ گوئبلز کو جدید تاریخ انسانی میں پُراثر اور بے مثال MANIPULATOR کا مقام ملا۔ بوجوہ جھوٹ اور پراپیگنڈا رائے عامہ کو قائل کرنے کی اس غیرمعمولی صلاحیت پر ہٹلر کو اقتدار ملا۔
گوئبلز جوانی سے ہی غیرمعمولی ذہین فطین، پُرعزم نوجوان طاقت و اقتدار کی خواہش سے مالامال تھا۔ پیدائشی طور پر دیہاتی اور متوسط خاندانی پس منظر، جس پر اپنے ہم جولیوں میں اِترا نہ سکتا تھا، مزید ایک ٹانگ کی کمزوری، بچپن سے ہی شدید احساس کمتری میں مبتلا، بالآخر کبیدہ خاطر اور منتقم المزاج بن گیا۔ سکول کے ہم عصروں کےسامنے احساس کمتری، شروع زندگی کی EXCLUSION اور VULNERABILITY نے گوئبلز کو شاطرانہ داؤ پیچ سیکھنے پر مجبور کیا۔ اپنے آپکو برتر بنانے کیلئے طاقتور بننے کی سکیمیں بنائیں اور سیاست میں آنے کی ٹھانی۔ متعصب جرمن نیشنلزم اور رُومانوی آئیڈیلزم کو اپنایا تو اپنے آپکو ہٹلر کے قریب پایا۔ چرب زبانی، جنونی ولولہ سےلوگوں کو اپنے حق میں قائل مائل، اکسانے، بھڑکانے، منافرت اور عدم برداشت عام کرنے میں آناً فاناً بے مثال کامیابی ملی۔ ماہرین نفسیات کی متفقہ رائے کہ گوئبلز ایک غیر معمولی ماسٹر MANIPULATOR تھا، جس نے رائے عامہ کو بے رحمی سے جھوٹ پر قائل رکھا۔
لوگوں کو قائل کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت نے مقبولیت ( CHARM) کو چار چاند لگائے۔ رواں زباں، جذباتی، شعلہ نوائی اور کرشماتی سحر سے چاہنے ماننے والے اندھے مقلد اور وفادار بنے۔ گوئبلز کے نظریات اور مقصد کی سچائی پر ایمان لوگوں کی زندگی کا حصہ بن گیا۔ ایسے مقام اور صورتحال میں نرگسیت، خود پسندی اور انائیت شخصیت میں رچ بس گئے۔ حصول طاقت اور لامحدود اثر و رسوخ اپنا پیدائشی حق جان چکا تھا۔ خلق خدا سے جذباتی وابستگی کا ڈھونگ رچانے والا، جھوٹوں کا انبوہ لگانے والا، گوئبلز اب ایک سفاک بے رحم انسان بن چکا تھا، جس کیلئے عوام الناس کیلئے ہمدردی جعلی بلکہ ناپید تھی۔ دوران اقتدار آزادی رائے عامہ یا بالخصوص مخالفین کی آزادی گوئبلز کی تضحیک تھی۔ باہمی منافرت، ڈرانا، دھمکانا، مخالفین کو نیست و نابود کرنا، عرصہ حیات تنگ رکھنا، پر کمال حاصل تھا۔ مخالفین بلکہ اپنے ساتھیوں کی پبلک میں تضحیک کے نئے نئے طریقے اپناتا۔ عدم برداشت اور تشدد کو نازی جرمن کی معاشرت کا حصہ بنا ڈالا۔ بالآخر جرمنی تباہ و برباد، آج تک حقیقی آزادی سے محروم، گوئبلز نے اپنی بیوی اور چھ بچوں کیساتھ زہر کھا کر خود کشی کی اور بھیانک انجام سے دوچار ہوا۔ ایک شخص رسول اللّٰہ ﷺکے سامنے حاضر ہوا، میرے اندر ہر قسم کی برائی ہے، وعدہ کہ ایک چھوڑ سکتا ہوں۔ رسول اللّٰہ نے فرمایا، ’’جھوٹ بولنا چھوڑ دو‘‘۔ جھوٹ چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد اس شخص کی ساری برائیاں ختم ہو چکی تھیں۔
عمران خان کا ماضی پُرتشدد دھرنوں، جلوسوں، ریلیوں سے بھرپور، ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیا۔ 24 نومبر اسلام آباد پر چڑھائی کیلئے کس کس طرح کی اشتعال انگیز تقار یر نہ ہوئیں۔ جب چڑھائی کی تو سرعام ہیوی مشینری، آنسو گیس، اسلحہ، کیلوں والے ڈنڈے کیساتھ ’’پُرامن مظاہرہ‘‘، سمجھ سے بالاتر تھا۔ ایمان کی حد تک یقین کہ ناکامی مقدر بنے گی، یقیناً تضحیک آمیز ناکامی مقدر بنی۔ ناکامی کی خفت مٹانے کیلئے آزمودہ ہتھیار جھوٹ استعمال میں لائے۔ غرض یہ نہیں ہزار اموات یا بقول کھوسہ (278)، شیخ وقا ص (100)، مروت (50)، روف حسن (27)، راجہ (20)، گوہر اور علی محمد خان کی (12) اموات یا 12سے زیادہ کہنے والوں سے بیرسٹر گوہر کا اعلان لاتعلقی۔ مسئلہ یہ بھی نہیں کہ بقول غیر جانبدار غیر ملکی میڈیا نے 6سے 8اموات بتائیں، جس میں چار سیکورٹی والے بھی شامل ہیں۔ واردات اتنی کہ عمران خان کے لواحقین، معتقدین، اب تک ہزاروں ہلاکتیں ازبر کر چکے ہیں، آنکھوں دیکھا واقعہ سمجھتے ہیں۔ حکومتی موقف کو سچ ماننے والے اہم نہیں کہ انکا کہا بے اثر۔ اہم اتنا کہ کثیر تعداد میں انصافی متعلقین ہزاروں اموات پر ایمان لا چکے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم عمران خان کا انتشاری ایجنڈا اپنے مذموم مقاصد حاصل کر پائیگا یا بحیثیت قوم ہمارے پاس اب بھی اتنا وقت ہےکہ عوام الناس کو عمرانی جھوٹ کی غلامی سے نجات دلوا کر سچ مستحکم کر سکیں۔ کاش! عمران خان کے جھوٹ سے رہائی پاسکتے، یہی ایک کرشمہ مملکت کو بحران سے نکال سکتا تھا۔ حیف! آخری خبریں آنے تک مملکت جھوٹ کے رحم و کرم پر ہے۔
واپس کریں