دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریاست پاکستان کا قصور؟
حفیظ اللہ نیازی
حفیظ اللہ نیازی
جن کو نوازا، رُتبے دیئے، آج وطن عزیز کی جان کے دشمن ہیں۔ مملکت جھوٹ مکر فریب کی گرفت میں، اقدار پامال، بہتان، بد تمیزی، گالم گلوچ، دشنام طرازی، خود فریبی سکہ رائج الوقت، گھٹن کا ماحول ہے۔ فاشزم، انتشار، افراتفری، کنفیوژن، مایوسی چارسُو پنپ رہی ہے۔ وائے ناکامی! ذمہ داران ’’احساس زیاں‘‘ سے محروم ہیں۔ ہر چند سال بعد مملکت کے مستقبل پر سوالات کا انبوہ، خاطر خواہ جواب لا موجود۔
بات حتمی! مملکت کو اس حالت میں پہنچانے کیلئے جنرل راحیل اور جنرل باجوہ کے 9 سال کاری وار ثابت ہوئے ۔ اس نہج تک پہنچانے میں دونوں کا کردار سیاہ حروف سے درج رہےگا ۔ جنرل باجوہ کے قیامت خیز 6 سال ایسے ، گویا کہ مملکت سے کوئی بدلہ چُکانا تھا ۔ وطن عزیز کی حالت زارپر دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔’’ باجوہ ! شالا تیرا ککھ ناںر َوے ، سوہنی دھرتی دا توںککھ نئیں چھڈیا‘‘۔قطع نظر کہ محمد علی بوگرا (1953) سے لیکر شہباز شریف تک ایک وزیراعظم ایسا نہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدار کی مسند پر بیٹھا ہو ۔ اس تگ و دو میں سیاسی عدم استحکام مملکت کا جزو لاینفک بن گیا۔ کھینچا تانی میں پاکستان دو لخت ہوا ، کشمیر ہاتھ سے گیا ، سی پیک منصوبہ بند ہوا ، معیشت زبوں حال وغیرہ ، سب کچھ نے سیاسی عدم استحکام کی کوکھ سے جنم لیا ، سبق نہیں سیکھا ۔جنرل ایوب خان جب آرمی چیف بنا تو تاحیات چیف رہنے کی رِیت ڈالی ، رِیت آج ’’قانون‘‘ بن چکی ہے ۔ تعیناتی ، توسیع کے قریب ، وطن عزیز میں حشر کا میدان برپا رہتا ہے ۔ آج مملکت جس گڑھے میں اسکا کُلی ذمہ دار اکلوتا جنرل باجوہ ہے ۔ اپنی پہلی توسیع کی تگ و دو میں جنرل باجوہ نے نواز شریف کو چلتا کیا۔ عمران خان سے پہلی توسیع ملی تو دوسری توسیع کی فکر لاحق ہو گئی۔
بالآخر عمران خان کو ٹھکانے لگایا، شہباز شریف کو اس شرط پر اقتدارملا کہ چند ہفتوں میں مستعفی ہوکر نگران حکومت قائم کرنی تھی۔ باجوہ کی زندگی کی آخری خواہش ، خود کو دوسری توسیع دینا تھی ۔ بجائے اپریل مئی 2022میں عمران خان کا مکو ٹھپا جاتا ، انکو جلسے جلوس ، ریلیوں کیلئے فیلڈ میں اُتارا، مقصد کہ شہباز حکومت دباؤ میں آکر مستعفی ہو تاکہ جنرل باجوہ اپنی مرضی کی نگران حکومت لاسکے۔ اسی تناظر میں شہباز حکومت کو عمران خان کیخلاف تادیبی کارروائیوں سے روکا گیا ۔ عمران خان کو توانا کیا گیا ، آج عفریت بن چکا ہے ۔ 26نومبر 2018کا دن، جنرل عاصم منیر کی ترقی جنرل باجوہ نے اس تسلی سے اور یہ سوچ کر کہ27 نومبرکو ریٹائر ہو جائے ، تاکہ چیف بننے کی ریس سے باہر رہیں۔ 2022، شروع میں باجوہ کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس ریس میں جنرل عاصم منیر (DARK HORSE) ثابت ہونگے ۔ باجوہ کو جب چند ماہ پہلے اندازہ ہوا کہ جنرل عاصم مضبوط پوزیشن میں ہیں تو پلک جھپکتے جنرل فیض اور عمران گٹھ جوڑ ( NEXUS ) کو اپنے ہی ادارے اور جنرل عاصم کیخلاف جھونک ڈالا۔ راولپنڈی لانگ مارچ پلان بنایا کہ جنرل عاصم کی تعیناتی رُک سکے۔ اللہ کا اپنا پلان، باجوہ تدبیرنے اُلٹا پڑنا تھا، ذات باری تعالیٰ کی تدبیر سے جنرل عاصم منیر سربراہ بن گئے۔ بدقسمتی! جب تک جنرل عاصم نے چیف کا عہدہ سنبھالا تب تک مملکت کا باجہ بج چکا تھا ۔عمران خان جب تک اقتدار میں، مقبولیت زمین بوس تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہونا مقبولیت کیلئے زہر قاتل کہ عرصہ قدیم سے قومی سیاسی شعار ایک ہی کہ اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بننے سے اقتدار تو مل جاتا ہے ، سیاست فارغ رہتی ہے ۔موقع غنیمت ! عمران خان نے بطل حریت کا روپ دھارا ، اسٹیبلشمنٹ کو للکارا اور نوازشریف کی مقبولیت ہتھیا لی ۔ آج مسلم لیگ ن سیاست، راندہ درگاہ بن چکی ہے۔
مارچ اپریل 2022ءمیں سپریم کورٹ ، ہائیکورٹس جنرل باجوہ/ جنرل فیض کے آگے سرنگوں ، عمران خان کو جلسے ، جلوس ، ریلیوں کے وسائل فراہم کئے رکھے۔ احتجاجی جلسوں کے دباؤ میں شہباز حکومت گرانی اورنگران حکومت لانی تھی۔ میر صادق میر جعفر جنرل باجوہ کو مہینوں کیا کیاکچھ نہ کہا، ستمبر میں المشہور یوٹرن لیا ، جنرل باجوہ سے منت ترلوں سے دو ملاقاتیں نصیب ہوئیں۔ پہلی ملاقات ہی میں موصوف نے جنرل باجوہ کے پاؤں پکڑ لئے ، مدت ملازمت میں توسیع دینے پر آمادہ اور بصورت کامیابی آئندہ زندگی باجوہ کی شرائط پر استوار کرنے پر راضی۔ آج باجوہ/ فیض کے تخلیق کردہ عفریت کو مملکت بھگت رہی ہے۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی کو مستحکم قدر و منزلت حاصل، بطور مقدس فریضہ عمران خان اور ہمنواؤں کے زیراستعمال ہے۔ باجوہ ،عمران فیض ٹرائیکا کا گناہِ کبیرہ دو انتہائی شریف النفس بے قصورشخصیات جسٹس قاضی اور جنرل عاصم مع انکے اہل خانہ پر مکاری ، جھوٹ ، بہتان تراشی کے ایسے وقت تیر برسائے جبکہ وہ اپنے اپنے اداروں میں عملاًعضو معطل تھے ۔ مئی 2019میں قاضی فائز عیسٰی کیخلاف جھوٹا ریفرنس دائر کیا گیا ، 15اکتوبر 2023تک عدالتی کاموں سے دور رکھا گیا۔ قاضی فائز اور جنرل عاصم کے اوپر بدتہذیبی اور اخلاق باختگی کی بوچھاڑ آخری خبریں آنے تک جاری ہے۔
کیسے مان لوں کہ دونوں کے دل سے نکلی آہ پر پکڑ نہ ہو۔ عمران خان آج براہِ راست اللہ کی پکڑ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ’’کسی ذی نفس کو اس وقت تک موت نہیں دیتا جب تک اسکا اندر باہر (اصلیت) آشکار نہ کر دوں‘‘۔ اللہ پر بھروسہ، ٹرائیکا کا انجام بھیانک رہےگا۔ تحریک انصاف (آزاد گروپ) عمران خان کو مزید 100سال جیل میں رکھنے کا متمنی، عمران خان کو اللہ 172سال زندہ رکھے تاکہ ’’آزاد گروپ‘‘ کی امید بَر آئے۔ ایک گونہ اطمینان تحریک انصاف (آزاد گروپ) کی باہمی دھینگا مشتی کے باوجود، ’’ہز ماسٹرز وائس‘‘ یعنی کہ اپنے ’’ماسٹرز‘‘ سے غداری نہیں کرینگے۔ ایسے میں بشریٰ بی بی کی رہائی نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہو گی۔ بشریٰ بی بی اِن ایکشن، آزاد گروپ کی طاقت کو مزید چار چاند لگنے ہیں۔ ممکنہ طور پر عمران خان کو لمبا عرصہ جیل میں رہنا ہے ۔ آنیوالے وقت میں رابطہ بھی بڑا عرصہ منقطع رہےگا۔ حالات نے عمران خان کو اکیلا اور بے یارو مددگار کر دیا ہے۔ اب جبکہ باجوہ عمران فیض ٹرائیکا اپنے منطقی انجام کے قریب، پوچھنے کی جسارت کہ ریاست کا قصور کیا تھا؟ آپ نے اسکی بیخ کُنی کیوں کی؟
آخر میں دردمندی سے ملتجی و ملتمس کہ تحریک انصاف کے جتنے لوگ آرمی CUSTODY یا جیل میں ہیں، اکثر سیاسی کارکن ،اس سے پیشتر دوسری جماعتوں میں بھی متحرک رہ چکے ہیں۔ میاں محمود الرشید، یاسمین راشد، سینیٹر اعجاز چوہدری، بیرسٹرحسان نیازی اور درجنوں دوسرے، اگر و ہ قانون توڑنے میں ملوث نہیں تو رہا کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔ مدنظر رکھیں، جوش و جذبے میں کئی بچے ایسے بھی ملوث جو غریب اور اپنے گھرانوں کے کفیل تھے۔ اگر کسی نے جس مقدار کا جرم کیا ہے اسکو اسی مقدار کی قرار واقعی سزا دیں، تجاوز نہ کریں۔ عمران خان کے گناہوں کا بوجھ اُن پر نہ ڈالیں، عین نوازش ہوگی۔
واپس کریں