دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کھیل ختم! ٹاپ بہانہ، باٹم نشانہ
حفیظ اللہ نیازی
حفیظ اللہ نیازی
جیل سے اعلامیہ’’میرا جنرل فیض حمید سے کوئی لینا دینا نہیں‘‘۔ جھوٹ بولے کوا کاٹے! ’’عمران خان آپ نے لیا بھی اور دیا بھی‘‘۔2011ءسے اسٹیبلشمنٹ کا اسکرپٹ جناب کی تحویل میں، ماشاء اللہ ! آپکی پرفارمنس ایوارڈ وننگ رہی۔12 اگست،ISPR کی پریس ریلیز میں، ٹاپ (TOP) پیرا گراف جنرل فیض کی ’’ٹاپ سٹی کرپشن‘‘ پر انکوائری، جبکہ باٹم (BOTTOM) پیرا ’’بعداز ریٹائرمنٹ‘‘پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی سے متعلق ہے۔ ’’بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے‘‘، بلاشبہ قبل از ریٹائرمنٹ (حاضر سروس) جنرل فیض کے جرائم کی فہرست طویل، ٹاپ سٹی کیس کی آڑ میں قبل از ریٹائرمنٹ حرکات و سکنات پر زیادہ کڑی گوشمالی ہونی ہے۔ ایک پنڈورا باکس کھل چکا، مین اسٹریم میڈیا، سوشل میڈیا وسیع وعریض طبع آزمائی کر رہا ہے، ہوشربا کہانیاں طشت ازبام ہو رہی ہیں۔
ISPR کی اس پریس ریلیز کا میں پونے دو سال سے منتظر تھا۔ اگرچہ جنرل فیض دسمبر 2022ءمیں گرفتار ہو بھی جاتے تو مملکت کی تباہی و بربادی کا ازالہ ناممکن تھا۔ خواہش، آج ریاست کیخلاف جرائم کا ارتکاب کرنیوالوں کا انجام، شیخ مجیب اور اندرا گاندھی سے بدتر دیکھنا چاہتا ہوں۔ میرا اللہ گواہ! جنرل فیض حمید کی گرفتاری پر بیتی خوشی ناقابل بیان ہے۔ عمران خان کی ذہنیت اگر حکومت میری نہیں تو کسی کی بھی نہیں، ریاست کی بربادی میں آسودگی دیکھی۔ جنرل فیض کی سازش کو عملی جامہ پہنانے میں عمران خان کا کردار لاجواب اور بے مثال تھا۔
جنرل فیض کا کردار تین ادوار پر مشتمل، بطور حاضر سروس 2017 تا اپریل 2022 تا نومبر 2022 تک، بعد از ریٹائرمنٹ نومبر 2022سے آج تک محیط ہے۔ جنرل فیض کا پہلا دور قابل گرفت نہیں کہ 1951سے آج تک سیاسی مداخلت ادارے کا وطیرہ رہا۔ علاہ ازیں، 75 سال سے جرنیلوں کی کرپشن زبان زدعام، ماضی میں کئی کور کمانڈرز ’’ارب کمانڈر‘‘ بن کر ریٹائر ہوئے۔ سیاسی مداخلت اور حکومتوں کا جوڑ توڑ 7دہائیوں سے کمالِ مشقت سے جاری ہے۔ 1953میں محمد علی بوگرہ کی بطور وزیر اعظم تعیناتی سے شہباز شریف تک، ایک بھی نہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کیخلاف وزیر اعظم بنا ہو۔ جنرل عاصم منیر کے دور کو استثنا ہے۔ جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان اللہ کی اسکیم کو ناکام بنانے کیلئے تن من دھن نہ لگاتے تو کم ازکم جنرل عاصم منیر کے پاس سیاست میں مداخلت کرنے یا نہ کرنے کی چوائس ہوتی۔ آج کے حالات کا کُلی ذمہ دار باجوہ، فیض، عمران ٹرائیکا ہے۔
ISPR کی پریس ریلیز میں جنرل فیض کی سیاسی مداخلت کا ذکر موجود نہیں تھا۔ ’’ٹاپ سٹی کرپشن کیس‘‘ بھی سہارا کہ کچھ پردہ داری کچھ عرصہ ضروری ہے۔ نجی محفلوں میں کھل کر اور میڈیا پر اشارۃً، اظہاریہ کہ اگر جنرل باجوہ ، جنرل فیض اور ایک بھاری بھر کم کاروباری شخصیت پر ہاتھ نہ ڈالا تو عمران خان کو سزا دینا ممکن نہیں رہنا ہے۔ الحمدللہ! سازش کے سارے کردار قابو، ان شاء اللہ سرغنہ بھی انجام کو پہنچے گا۔ ایک عرصہ سے تکرار، جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی اپنے ادارے کیخلاف سازش ایک ناقابل ِمعافی، ناقابل ِتلافی جرم ہے۔
تفنن، 10مارچ 1951کو بے نقاب ہونیوالےراولپنڈی سازش کیس، جنرل اکبر خان جنرل نذیر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، باجوہ، فیض، عمران پلان کہیں زیادہ گھناؤنی سازش ہے۔ ادارے کو آڑے ہاتھوں لینا (عمران خان خلوص دل کیساتھ استعمال) سازش کا گھناؤنا حصہ تھا۔ جنرل عاصم منیر کی بطور چیف تعیناتی رُکوانے کیلئے اپنے ادارے پر حملہ آور ہو گئے۔ عمران خان کی جب چھٹی کروائی گئی تو وعدہ اتنا کہ ’’فوراً انتخابات کروائیں گے‘‘۔ باہمی بد اعتمادی سازشی کھیل کا حصہ، جنرل فیض نے اپنی نگرانی میں عمران خان سے تحریک چلوائی کہ شہباز حکومت پر دباؤ رہے اور وہ نگران حکومت قائم کرنے پر مجبور ہو جائے۔
چشم تصور میں دو سال نگران حکومت، سپریم کورٹ میں اپنی مرضی کے 5ججز کی تعیناتی، پھر نومبر میں اپنے آپکو اور فیض حمید کو 10سال کی توسیع، رالیں ٹپکنا بنتی تھیں۔ بد اعتمادی ہی کہ پرویز الٰہی کو عمران خان کی طرف دھکیلنا، حمزہ شہباز حکومت گرانا، 20سیٹوں پر عمران خان کی کامیابی، عدالتیں باادب باملاحظہ ’’واللہ خیر الماکرین‘‘، ساری تدبیریں ہی الٹی پڑ گئیں، کچھ بھی کام نہ آیا۔ آخری چند ماہ تو پاگل پن کا دورہ، نومبر 2022ءمیں ادارے کیخلاف لانگ مارچ کر ڈالا، بلاشبہ راولپنڈی سازش کیس (1951 ) کو مات دے گیا۔
23 مارچ کو ارشد شریف کا قتل یا 3نومبر کو عمران خان پر قاتلانہ حملہ، جب بھی تحقیق ہو گی پتہ چل جائیگا مملکت میں انارکی اور خانہ جنگی کی کوشش تھی۔ دونوں وارداتیں ملک کے اندر مارشل لا لگانے کیلئے تھیں۔ جنرل باجوہ، فیض اور عمران خان کے جرائم کتاب کا موضوع، مسلم لیگ ن کے رہنما بھی گوڈے گوڈے ملوث تھے۔ آج بہت لوگ وضاحتیں دے رہے ہیں، احساس جرم تلے دبے نظر آ رہے ہیں۔ خواجہ آصف کے انٹرویو اور بیانات چشم کشا کہ مئی 2019 میں جنرل باجوہ کے سُسر جنرل اعجاز کے ہاں جنرل فیض کو بتایا کہ ’’ہم جنرل باجوہ کو توسیع پر ووٹ دیں گے‘‘۔ یقیناً خواجہ آصف نے دانستہ ( SPILLING THE BEANS ) شوشہ چھوڑا۔ سوال اتنا کہ مئی 2019ءمیں جنرل باجوہ کو توسیع ووٹ کا مطلب صاف صاف کہ بدلے میں نواز شریف کو جیل سے رہا ہو کر بیرون ملک چلے جانا تھا۔ معلوم ہے کہ خواجہ آصف جس ’’ریکروٹ‘‘ کا ذکر کر رہے ہیں، وہ ملک احمد خان نہیں کوئی اور ہے، مجھے سب معلوم ہے۔ البتہ! اسپیکر احمد خان خواہ مخواہ اپنے دل پر لے بیٹھے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ سارے کردار جنرل باجوہ کے رحم و کرم پر انکے خدمتی تھے۔ آج بشمول عمران خان برات حاصل کر رہے ہیں۔
خاطر جمع، ادارے کے درجنوں گرفتار ہو چکے ہیں چند دنوں بعد سازش کا حصہ سویلین بھی تیار رہیں۔ اللہ کی طرف سے تعینات شدہ سپہ سالار نے کسی کو نہیں بخشنا۔ اس سازش میں بے شمار کردار، کیا کوئی اپنی ماں جیسی ریاست کیساتھ ایسا کھلواڑ بھی کرتا ہے۔ ان کرتوتوں کی بنا پرآج مملکت حالت نزاع میں ہے۔ جنرل باجوہ، جنرل فیض، عمران خان سے کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جانی چاہیے۔ سازشیو ! تمہارا کھیل ختم، پیسہ ہضم۔
واپس کریں