دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بے وفاؤں کے قائد کا مستقبل!
حفیظ اللہ نیازی
حفیظ اللہ نیازی
سو گیدڑوں کی قیادت ایک شیر کے پاس یاسو شیروں کی قیادت ایک گیدڑ کے پاس ، دونوں صورتوں میں شکست ، ذلت، خواری ہی مقدر۔ نواز شریف ایک راست قدم اٹھاتا ہے ، بڑھاتا ہے توجانثار سینکڑوں قدم ان سے آگے ، سیاسی رہنماؤں کا معاملہ مختلف ہے، اُنکوقائد کی ٹانگ پیچھے کھینچنے میں جھجک نہ ہچکچاہٹ ۔ اسی کھینچا تانی میں ہی تو توسیع مدتِ ملازمت قانون پر نواز شریف کو شرمندہ رکھا، تحریک انصاف کے ساتھ یکسوئی اور یگانگت کا مظاہرہ کر کے ذلت کمالی ۔ 2021کے آخر میں مسلم لیگ ن جب عمران خان کی حکومت گرانے میں جنرل باجوہ کے ہاتھ کا کھلونا بنی ۔ نواز شریف کی 40 سالہ سیاست یا یوں کہئے کہ 24 نومبر 2007سے مقبولیت کی جو لہر اُٹھی، نواز شریف اس پر سوار ، وہ2021 میں آسمان چھوچُکی تھی ،لیڈروں نے اُس کو اقتدار کی ہوس میں فروخت کر ڈالا ۔’’شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا، مے خانے میں،جبہ، خرقہ ،کرتا، ٹوپی مستی میں انعام کیا‘‘ ۔ مسلم لیگ ن کوسب کچھ لٹا کر جب حکومت ملی ، تو سیاست زندہ درگور ہو گئی ۔
غور طلب اور اہم،نواز شریف کے اپنے دور ِاقتدار میں جب بھی آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کی توسیع کا معاملہ آیا،محروم رکھا۔2016 کے ہنگامے ، شورش، پانامہ اور اقامہ سب کے پیچھے جنرل راحیل کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہی وجہ نزاع بنی۔وطن عزیز میں آج جو سیاسی عدم استحکام ہے اُس کی بنیاد جنرل راحیل شریف کے دستِ مبارک سے ہی ڈالی گئی ۔ ‘‘سیاست نہیں ریاست بچاؤ ‘‘(2014)، ’’پانامہ‘‘(2016 ) دونوں کارنامے جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں ادا ہوئے۔
ستم ظریفی فوراًبعدآنے والا جنرل باجوہ گروپ نے وہیں سے شروع کیا جہاں ’’راحیل شریف گروپ‘‘چھوڑ کر گیا تھا۔عمران خان کی بھرپور ناکامی کے بعد سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ کے مقدس فریضہ کی ادائیگی میں جنرل باجوہ گروپ کا سارا انحصار جسٹس ثاقب کے عدالتی نظام کے مضبوط کندھوں پر آن پڑا۔ جسٹس ثاقب نثار گروپ نے مایوس نہ کیا، آئین قانون کو دن دھاڑے روندا ۔ نواز شریف کو ہر مد میں سیاست سے باہر کر دیاگیا۔اس کے پیچھے اغراض و مقاصد فقط اتنے کہ 2018 الیکشن سال اور 2019 توسیع مدتِ ملازمت کا سال، الیکشن میں نواز شریف مائنس اور عمران خان پلس کو ممکن بنانا تھا، بناڈالا۔ جبکہ نواز شریف جو بلا شرکت ِغیرے مقبول ترین رہنماء الیکشن جیت جاتا تو جنرل باجوہ کی باعزت رخصتی دیوار پرکندہ تھی۔ جنرل باجوہ کی دو عملی کو شاباش ، ایک ہی وقت میں عمران خان اور اپوزیشن سے مفاہمت اور دلجوئی میں با کمال تھے ۔
ایک واقع اور بھی، 2020میں اپوزیشن جماعتوںنے جب اپنی تحریک کا آغاز کیاتو جنرل باجوہ حاصل حصول ایک ہی کہ عمران خان پر دباؤ ڈال کر اپنے آپ کو مضبوط کیا جائے۔ تحریک شروع ہوتے ہی سر منڈاتے ہی اولے پڑے ،20 نومبر2020کو گوجرانوالہ سے اپوزیشن کی عمران ہٹاؤ تحریک کا آغاز ہوا تو نواز شریف نے پہلے جلسہ میں ہی رنگ میں بھنگ ڈال دی،مزہ کرکرا کر ڈالا ۔ مریم نواز صاحبہ نے مجھے یقین دہانی کروائی کہ ’’لاہور جلسہ سے پہلے عمران خان کی چھٹی ہو جائے گی ‘‘۔ مریم بی بی کو کس نے یقین دہانی کرائی، بظاہر مسلم لیگ ن کے ’’بطل حریت ‘قائدین نے ہی ایسی یقین دہانی کرائی ہو گی ۔ نواز شریف نے پلک جھپکتے اپوزیشن کے مفاہمتی بیانیہ کا پانسہ پلٹ دیا۔ بغیر الفاظ چبائے،’’میرا جھگڑاا عمران خان سے نہیں، وہ تو ہے فقط مہرہ ناچیز، میرے اور ریاست کے خلاف جرائم جنرل باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض سے سرزدہوئے ہیں ۔ میری شکایت ان دونوں کے خلاف ہے‘‘۔ازراہ ِتفنن، چشم تصور میں اپوزیشن اتحاد، ’’جنرل باجوہ کے سائے تلے ہم سب ایک ہیں‘‘،عمران حکومت کو ڈوبتا اور اپنی حکومت کو بنتا دیکھ رہے تھے۔ نواز شریف کی تقریرنے سہانے سپنے ایسے تتربتر رکھے ۔ تحریک پنپ نہ سکی، بن کھلے مرجھا گئی۔
کئی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ قومی رہنماؤں کےلئے مقبولیت کا نسخہ کیمیاء اسٹیبلشمنٹ کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو آڑے ہاتھوں لینا ہی تو ہے۔نواز شریف کو اس کا عملی تجربہ ہے ۔ 2018 کے پہلے تین ماہ نواز شریف نے مریم نواز کی انگلی پکڑ کر ملک بھر شہر شہر جا کر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیہ کو پروان چڑھایا ۔ غیر معمولی پذیرائی ملی، مقبولیت ٹھاٹھیں مار رہی تھی۔6جولائی2018کو احتساب عدالت نے مانیٹرنگ جج کی نگرانی میں جب نواز شریف کو دس سال اور مریم نواز کو سات سال قید سنائی تو باپ بیٹی لندن میں مقیم تھے۔ تاریخ میں پہلی بار کہ دس سال قید کاٹنے کے لئے ہزاروں میل مسافت طے کر کے جولائی کی گرمی اور حبس میں ،( جہاں عمران خان نے AC اور پنکھے اُترؤا لئے تھے) خود چل کر آگئے۔ بیٹی کی انگلی پکڑ ے شان کیساتھ اپنے آپکو حوالہِ زنداں کیا۔وطنی تاریخ کی بیشمار تحریکوں کا چشم دید گواہ ہوں۔ 13جولائی کو جس تعداد، جوش ولولے سے مسلم لیگی کارکن نکلے،تاریخ رقم ہوئی۔ مسلم لیگ ن کی بدقسمتی کہ اس وقت قیادت گیدڑوں کے پاس تھی۔ اپنوں نے ہی تو استقبال ناکام بنوایا۔اپنے ہی رہنماؤں کی ملی بھگت نے نواز شریف کی سیاست کو بستر مرگ پر پہنچا دیا۔ جنرل باجوہ کےtenure کے ساڑھے پانچ سال کئی مسلم لیگی قائدین جز وقتی نوکری کرتے رہے جبکہ آخری چھ ماہ جنرل باجوہ نے مسلم لیگ ن کو فُل ٹائم نوکر رکھ لیا ۔ ہمہ یاراں اقتدار دے کر ذلت کی بھٹی میں جھونک دیا۔
12 اپریل 2022 ، جس دن مسلم لیگ ن کے وزیراعظم نے حلف اُٹھایا ، نواز شریف کی سیاست دفن ہو گئی ۔ منطقی نتیجہ عمران خان سیاست نے زندہ جاوید ہونا ہی تھا ۔ حیرت نہیں، 12 اپریل 2020 سے آج تک وطنی سیاست کا محور عمران خان ، اُنکا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ نواز شریف کو پاکستان آنے پر سیاسی SPACE چاہئے ، بظاہر عمران خان کے پاس، اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ عمران خان کو برا بھلا کہنا یا اُسکے عرصہ اقتدار کو پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرانا ، ایک مدافعانہ اور وضاحتی عمل ہوگا ۔ دوسری طرف آج اسٹیبلشمنٹ جتنی غیر مقبول ، شاید ماضی میں ایسے چند موقعوں پر ہی رہی ہو ، نواز شریف کا مضبوط بیانیہ تریاق ثابت ہو سکتا تھا ۔ حیف! مسلم لیگ ن کے وطن مقیم قائدین اس بیانیہ پر لرزہ براندم ہو گئے ۔ بظاہر لگتا ہے نواز شریف کو اپنے نئے نویلے بیانیہ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ نیا بیانیہ سیاسی قدر و منزلت بڑھا پاتا یا یکسر ناکام رہتا۔ خاطر جمع اور حتمی اس بیانیہ کے علاوہ کوئی چارہ تھا ہی نہیں ۔ میاں صاحب تگڑے بیانیہ کی غیر موجودگی میں آپکا موثر کردار نہیں بن پائے گا ۔ اس دفعہ ثابت ہوا کہ سوگیدڑوں کا قائد شیر بھی ہوتو نتیجہ ذلت اور ناکامی ہی رہتا ہے۔
واپس کریں