آج کے دور میں معاشرہ بڑی تیزی سے ایسے ذرائع ابلاغ کی طرف متوجہ ہو رہا ہے جہاں لوگ اپنی مرضی سے سیاسی ، مذہبی اور معاشرتی مسائل پر اپنے نقطہ نظر کا آزادانہ اظہار کر سکیں۔ آزادی رائے کا حق ذمہ دارانہ رویہ سے مشروط ہے جس میں سماج ، ثقافت ، روایت اور مذہب کے وضع کردہ ضوابط ہر کسی کو اپنانا پڑتے ہیں۔ جعلی خبریں پھیلانا اور دوسروں کی عزت اچھالنا کسی طور قابل قبول رویہ نہیں۔ اظہار رائے ضرور ہو مگر اخلاقیات کے دائرے میں۔ حکومت نے سوشل میڈیا اور فیک نیوز پر مزید قانون سازی کرتے ہوئے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے منظور کرانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ اس کے اہم نکات کے مطابق فیک نیوز پر تین سال قید، بیس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکیں گی۔ جرم پر اکسانا،جعلی یا جھوٹی رپورٹس، اسلام و پاکستان مخالف ،عدلیہ اور فوج کے خلاف مواد غیر قانونی شمار ہو گا۔ پابندی کی شکار شخصیات کے بیانات اپ لوڈ نہیں کئے جا سکیں گے۔ مجوزہ ترمیم میں سوشل میڈیا کی نئی تعریف بھی شامل کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہو گی جسے سوشل میڈیا مواد ریگولیٹ کرنے ،شکایات پر مواد کو بلاک یا ختم کرنے کا اختیار ہو گا ۔اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی ، معیارات کے تعین اور اس پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنانے کی مجاز ہو گی۔ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ فیک نیوز کی روک تھام کیلئے قانون سازی درست ہے لیکن اس کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ اظہار رائے کی جائز آزادی اس قانون سے متاثر نہیں ہونی چاہئے۔ کسی کے خلاف کارروائی میں عدالت میں انتظامیہ کی بدنیتی ثابت ہو تو اس پر بھی تادیبی کارروائی نہیں ہونی چاہئے۔ آزادی صحافت اور آزادی رائے کے آئینی حق کو ہر قیمت پر محفوظ رکھا جانا چاہئے۔
قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ( پیکا) ایکٹ ترمیمی بل 2025ء میں کہا گیا ہے کہ نئی شق 1 اے کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوگی۔اتھارٹی 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا، اتھارٹی کے ایکس آفیشو اراکین ہوں گے۔
ترمیمی بل کے مطابق فیک نیوز پر پیکا ایکٹ کے تحت 3 سال کی سزا دی جاسکے گی، غیرقانونی مواد کی تعریف میں اسلام مخالف، ملکی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد اور جعلی یا جھوٹی رپورٹس شامل ہوں گی، غیرقانونی مواد میں آئینی اداروں بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف مواد شامل ہوگا۔غیرقانونی مواد کی تعریف میں امن عامہ، غیرشائستگی، توہین عدالت، غیر اخلاقی مواد بھی شامل ہوگا اور غیرقانونی مواد میں کسی جرم پر اکسانا شامل ہوگا۔وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق قانون میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں عجب صورتحال ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتیں آئے روز نئے ضابطے اورترمیمی بل لاتی رہتی ہیں۔ان کی میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے شدید مخالفت کی جاتی ہے۔جیسے ہی اپوزیشن حکومت میں آتی ہے تو وہی کام خود بھی شروع کر دیتی ہے جس کی مخالفت اپوزیشن میں رہتے ہوئے کی جاتی تھی۔اسلام، پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کے خلاف منفی رائے آئین کی دفعہ 19 کی ذیلی شق کے تحت پہلے ہی ممنوع ہے اور دوسرے متعلقہ قوانین بھی موجود ہیں تو اس پر پھر باربار ترمیمی بل لانے کی کیوں ضرورت محسوس کی جارہی ہے‘ اسی سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ آزادی رائے پر قدغنیں لگانے کی کوششیں ہیں جس پر ردعمل بھی آرہے ہیں‘ سی پی این ای ، اے پی این ایس اور پی ایف یو جے نے بھی اسے مسترد کیا ہے۔ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جس سے اظہار رائے پر قدغن لگتی محسوس ہو۔
واپس کریں