اردو میں اس پہلی تحریر کا موجب سہیل وڑائچ صاحب سے کراچی میں اتفاقیہ ملاقات ہے، جو نہ صرف ایک خواہش کی تکمیل تھی بلکہ گفتگو کے دوران انکی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے۔اس ملاقات میں بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح انہوں نے بھی مجھ سے سوال کیا کہ مجھے سسٹم کے اندر رہ کر اسے درست کرنے کی کوشش کرنا چاہئے تھی۔ اس تحریر میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
1992سے اپنی پروفیشنل زندگی کے آغاز میں ہی عامیانہ طور پر لوگوں کے قول وفعل کے تضادات کو نوٹس کرنا شروع کیا۔ شروع میں تو اسے عملی زندگی کا طریقہ سمجھا لیکن ضمیر اسکے عمل کرنے پر ملامت کرتا رہا اور اسی تگ ودو میں کئی سال بیت گئے اور میں ٹیکس ٹریبونل میں بطور جوڈیشل ممبر تعینات ہوا اور میرا ضمیر پوری آب وتاب سے مجھے منصفی کےآفاقی تقاضوں کا احساس دلانے لگا۔ ایک اعلیٰ عہدے پر فائز وفاقی ٹیکس محتسب کے فیصلے سے اختلاف کے نتیجے میں مجھے نہ صرف یہ عہدہ چھوڑنا پڑا بلکہ 2012میں عدالت عالیہ لاہور میں بطور جج تعیناتی کے عمل سے نکال دیا گیا۔ 2014میں افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد میری بطور جج تعیناتی نے میرا اللّٰہ پر ایمان کامل کر دیا۔ اب مجھے اپنے بطورِ جج حلف کا ادراک تھا اور عہدے کے چھن جانے کا خوف نہ تھا، شاید اسی لیے میں نے حاضر سروس چیف جسٹس پاکستان کی ایک کیس میں سفارش کو دو مرتبہ رد کیا۔ یہ اس لیے ہوا کہ آئین پاکستان جج کے آزاد ہونے کی ضمانت دیتا تھا، جو آئین میں چھبیسویں ترمیم کے بعد ختم ہو گئی ہے۔
دس سال بطور عدالت عالیہ جج، میں نے سسٹم کو بہت قریب سےدیکھا اور اس کی گہرائی میں جا کر کچھ ایسے فیصلے دیئے جو نہ صرف موجود سائل کی داد رسی کرتے تھے بلکہ مفاد عامہ کے مخالف نظام کو درست کرنے کا حکم بھی رکھتے تھے۔ ان میں قابل ذکر ماتحت عدالتوں میں عملےکی تقرریوں کے خلاف فیصلہ ہے، جسے فوراً ہی دو ججوں کے بینچ کے سامنے لگا کر معطل کردیا گیا اور آج تک معطل ہے۔ فیصلہ لکھنے کے دوران ایک سے زیادہ ساتھی ججوں نے مجھے اِحساس دلانے کی کوشش کی کہ ان کے سفارش شدہ لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔ میں یہ بات بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے عدالتی نظام میں وہ تمام خامیاں موجود ہیں جن کی نشاندہی عدالتیں اپنے فیصلوں میں اکثر کرتی ہیں۔ شاید اسی تضاد کی وجہ سے ان کے فیصلے پر اثر نہیں ہوتے۔
ایک اور فیصلے میں ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کی سفارش اور گرانٹ پر ترقیاتی کاموں کو خلاف آئین و قانون قرار دیا، جو کہ لوکل گورنمٹ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اس ججمنٹ میں پنجاب میں لوکل گورنمٹ کے الیکشن کروانے کا حکم بھی تھا لیکن یہ فیصلہ بھی معطل کر دیا گیا اور آج تک پنجاب میں مقامی حکومتوں کے الیکشن نہیں ہوئے۔ جمہوریت کی اساس بیان کرتے ہوئے ابراہم لنکن نے کہا تھا ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے‘‘۔ مقامی حکومتیں اس کی بہترین عملی صورت ہو سکتی ہیں اگر بنیادی انتظامی اختیارات لوگوں کو تفویض کیے جائیں۔ لیکن ہر سیاسی جماعت نے عوام کے فنڈز کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے آئین کی روح کے خلاف جاتے ہوئے مقامی حکومتوں کوجڑ ہی پکڑنے نہیں دی۔
تعلیم، ہائوسنگ سکیم اور صحت حکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے لیکن اس مملکت خدا داد میں اسے نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا ہے اور اس کاروبار کو کرنے والے دیکھتے دیکھتے ارب پتی بن گئے ہیں۔ یہ دولت قانون شکنی کے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے۔ میں نے ان تینوں شعبوں میں لوگوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کا نوٹس لیا اور ان مفاد عامہ کے مقدمات کو کچھ عرصہ چلایا۔ کوئی خاطر خواہ کامیابی اس لیے نہ ہوئی کہ اس کاروبار کو چلانے والے بالواسطہ اور بلاواسطہ حکومت اور مقننہ میں موجود ہیں۔سسٹم کو دس سال قریب سے دیکھنے کے بعد میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سرکاری عہدوں پر تقرریوں کا نہ ہونا اور عوام کو لوکل گورنمنٹ کی صورت میں اختیارات نہ دینا ملک میں بد انتظامی کی جڑ ہے۔ چونکہ میں خود پبلک سروس کمیشن سے کامیاب ہو کر ٹیکس ٹریبونل کا ممبر بنا تھا، اس لیے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کی گئی قانونی ترمیم کا ناقد تھا۔ پبلک سروس کمیشن کی جگہ تعیناتیوں کا اختیار وزیراعظم کے بنائے گئے رولز کے مطابق کر دیا گیا۔ اس کے بعد اپنے پیاروں اور سیاسی لوگوں کو کنٹریکٹ پر تعینات کیا گیا۔ ن لیگ کی حکومت آنے پر میں نے اپنے دوست وزیر قانون کو اس ناانصافی کا احساس دلایا۔ اس کے باوجود ایک اور قانونی ترمیم سے اس بدعملی کو استحکام دیا گیا۔ میں نے ان ترامیم کو خلاف آئین قرار دے دیا، پی ٹی آئی اور ن لیگ کے وکلا نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اور میرے قریبی دوست ججوں نے اس فیصلے کو معطل کر دیا۔
اسکے بعد میرے سامنے دو راستے تھے کہ اگلے چار سال چپ کر کے مناسب سی ججی کروں اور مراعات سے مستفید رہوں، یا اپنی ذہنی صحت بچاتے ہوئے مستعفی ہو کر سر عام سچ بولوں۔ میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور اب سچ بولنے کی کوشش کر رہا ہوں اور اللّٰہ کی مدد سے کرتا رہوں گا کیونکہ سچ بولنا بنیادی دینی فرائض میں اولین ہے۔
واپس کریں