دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
‎جناح تھرڈ کی پاپولیریٹی اور ناکامی؟‎
افضال ریحان
افضال ریحان
پی ٹی آئی کی اونچی دکان کے پھیکے پکوان ملاحظہ کرتے ہوئے درویش کو سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا وہ واقعہ یاد آگیا جنہیں انٹرنیٹ پر لاکھوں پیغامات موصول ہوئے کہ آپ واپس آئیں ہم آپ کیلئے اٹھ کھڑے ہوں گے وہ خوش فہم آدمی جب کراچی ایئرپورٹ پر اترا تو یہ پوچھتا ہی رہ گیا کہ وہ لاکھوں کدھر ہیں ؟ کچھ اسی طرح کا ہاتھ ہمارے پاپولر لیڈر جناح تھرڈ اور ان کی شریک حیات کے ساتھ ہوا ہے جنہیں چوری کھانے والے مجنوں یہ کہتے تھے کہ ڈی چوک پہنچ کر ہم ایسا طوفان اٹھائیں گے کہ کھلاڑی کو رہا کروا کے بلکہ وزارتِ عظمیٰ کے سنگھاسن پر بٹھا کر ہی اٹھیں گے مگر طاقتوروں کی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہوائی فائرنگ اور بہتر پلاننگ کے پہلے ہی دھاوے میں سب بھاگ کھڑے ہوئے، جناح ثالث نے تو یہ سوچا ہوگا کہ وہ بنگلہ دیش کے ڈائریکٹ ایکشن ڈے کی تاریخ دہرا دے گا لیکن یہاں تو الٹی ہوگئیں۔ سارےمجنوںبھاگ نکلے، روحانی تفاخر اور پھوں پھاں کی اتنی ہیوی ہنڈیا ‎ڈی چوک کے چوراہے میں پھوڑ دی۔ درویش نے آپ لوگوں کو کس قدر سمجھایا تھا کہ جیسے تیسے بنا بنایا سچا جھوٹا اپنا بھرم نہ توڑیے گا ہمارے موجودہ حالات کسی بھی ایسی تحریک کیلئے قطعی ناسازگار نہیں احتجاجی تحریک تب بھڑکتی ہے جب استبداد کی ایک تاریخ ہو۔ ذرا یہ بھی بتایےکہ سوائے پٹھانوں کے دیگر تمام صوبوں سے خان کی رہائی کیلئے کتنےافراد نکلے؟ یہ تو ابھی پختون جوانوں نے کے پی قیادت بالخصوص علی امین گنڈا پور کا بھرم رکھ لیا ورنہ خرچے پانی، پرموشن اور جھوٹی طفل تسلیوں کے بہکاوے میں لائے گئےغربت اور مسائل کے مارے لوگ اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتے تھے؟ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی منتخب قیادت جو اس وقت اسمبلیوں میں براجمان ہے وہ عقل و فہم سے عاری نہیں،ان لوگوں کو حقائق کی سنگینی کا ادراک ہے علی امین گنڈا پور ہوں یا بیرسٹر گوہر یا عمر ایوب یہ سب عوامی مسائل و مشکلات کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ لوگ موجودہ حالات میں اپنی سیاسی جدوجہد کو انتہائی اقدام یا ڈائریکٹ ایکشن تک لے جانے سے گریزاں تھے اور ڈائریکٹ ایکشن اس وقت اٹھایا جا سکتا ہے جب اسٹیبلشمنٹ کی چھتری یا کسی نہ کسی سائیڈ سےکوئی اشارہ موجود ہو بصورت دیگر ایسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے، جو فائنل کال کا ہوا ہے۔
کھلاڑی کی بیگم بشریٰ نے اپنی لیڈرشپ منوانے کیلئے پورے خلوص کے ساتھ جو کچھ کیا اس سے پی ٹی آئی کی ساکھ کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچا ہے انکے سوشل میڈیابیان کا بڑا چرچا ہے کہ وفادار بیوی مشکل ترین حالات میں بھی اپنے خاوند کا ساتھ نہیں چھوڑتی کبھی بے وفائی نہیں کرتی، کتنی خوبصورت بات ہے جو انہوں نے ارشاد فرمائی ہے ۔ 27 اور 28 نومبر کی درمیانی رات اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایسا کیا ہوا کہ کھلاڑی کا پرجوش احتجاجی قافلہ اپنے قائد علی امین کے ساتھ گنڈاپور کی طرف چل دیا اور بشریٰ بی بی بھی اس بھاگ دوڑ میں کسی سے پیچھے نہ رہیں۔بہت سے دوست فون کر کےدرویش سے اصلیت جاننے کیلئے اس نوع کا استفسار کر رہے ہیں ،جواب یہ ہے کہ بھائی یہاں ہر مال جعلی ہے پریت ہے جھوٹی، پریتم جھوٹا، جھوٹی ہے ساری نگریہ، مصنوعی نعرے مصنوعی قیادتیں مصنوعی کارکنان، وہ لوگ جنہیں خصوصی طور پر یہاں لا کربسایا گیا تھا وہ بھی کام نہ دکھا سکے بلکہ ریاستی اداروںکی بہتر منصوبہ بندی نے انہیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا اب مہینوں یہ بحثیں ہوتی رہیں گی کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں آپریشن کلین اپ کیسے ہوا؟اصل والے ایک پیج کو کیسے درست ثابت کر دکھایا گیا؟ کتنے گرفتار ہوئے اور کتنے گھائل؟ اس پر بھی حسب استطاعت تخمینے لگتے رہیں گے بہرحال یہ قیدی نمبر 804 کی زندگی کا ’’یوم حزن‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے، توبہ کیسی بد حواسی تھی کہ بھاگنے والوں کی اپنی گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں اہم ریکارڈ رکھنے والا کنٹینر بھاگتے ہوئے کارکنان نے خود ہی جلا ڈالا یہ بھی کہا جا رہا ہے رینجر والوں نے اندھیرے میں بھرپور پٹائی کی کیونکہ احتجاج والوں نے ان کے تین اہلکار مار ڈالے تھے ٹوٹل کتنی ہلاکتیں ہوئیں اور کتنے زخمی؟ یہ بحثیں چلتی رہیں گی۔
عجیب و غریب حیلے بہانے بنائے جا رہے ہیں کہ جب خان نے کہا تھا کہ سنگجانی پر دھرنا دے دیا جائے تو پھر بشریٰ بیگم نے اسے کیوں نظر اندازکیا؟یہ امر حکومت کےبھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ انکی عوامی ساکھ اس وقت کس سطح ہر ہے؟ وہ کے پی میں گورنر راج لاگو کرنے کی سوچ اپنےذہن سے نکال دے، ملک اس وقت بدترین معاشی بربادی کا شکار ہی نہیں دہشت گردی اور جنونیت میں بھی لتھڑا پڑا ہے۔ ایک طرف لوگ مہنگائی، بے روزگاری اور بے انصافی کے ہاتھوں رو رہے ہیں تو دوسری طرف کوئی دن نہیں گزرتا جب انتہا پسندی، مذہبی منافرت اور قتل و غارت کی کوئی واردات نہیں ہوتی ابھی پارہ چنار میں شیعہ سنی کے نام پر جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور بلوچستان میں علیحدگی پسندی جس طرح بڑھ رہی ہے چائنہ کے اپنے لوگ یہاں مر رہے ہیں، ایسے میں کوئی نیاسیاسی خلفشار ہمیں کہاں لے جائے گا؟ ایسی کسی حرکت سے پہلے اس کے نتائج کا ادراک کریں، بس اتنا سوچ لیں کہ اگر رات کو پی ٹی آئی کارکنان بھاگنے کی بجائے ڈٹ جاتے تو سب کا حشر نشر ہو جاتا، اور بیشتر بڑے کسی بیرونی ملک میں پناہ مانگ رہے ہوتے۔
واپس کریں