افضال ریحان
ہماری قومی سیاست میں نوازشریف نہ تو مسیحا ہے اور نہ اتاترک جیسا کوئی آئیڈیل لیڈر، وہ کوئی فلاسفر ہے نہ تھنکر وہ جب بات کر رہا ہوتا ہے تو درویش کو کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ہتھے سے اکھڑ نہ جائے۔ اسکے ساتھ ہی اگر تنقید نگار حوصلے سے کام لیتے ہوئے ضمیر کی مطابقت میں اظہارِ خیال کی اجازت مرحمت فرما دیں تو یہ عاجز عرض گزار ہے کہ پچھلے 76، 77برسوں میں نہ اس ملک کو نواز شریف جیسا مخلص لیڈر ملا اور نہ ہی مسلم لیگ کو 1906ء سے لے کر اب تک ان جیسا بھلا مانس، ہمدرد اور درد مند دل رکھنے والا بااصول صدر۔ نواز شریف پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر کوچۂ سیاست میں نمو دار ہوئے، کوئی شک نہیں مگر بال کی کھال اتارنے والے ہمارے یہ معترضین شاید پاک و ہند ہسٹری کا زیادہ ادراک نہیں رکھتے ورنہ وہ اس حقیقت سے قطعی بے خبر نہ ہوتے کہ مسلم لیگ کی تو پیدائش ہی اپنے وقت کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں ہوئی تھی، ہمارے مرشد سرسیدؒ سے بڑھ کر خطۂ ہند میں انگریز سرکار کا کون وفادار تھا؟ 1906ء کا کارنامہ کیا اُسی محسنِ اعظم کے شاگردوں نے سر انجام نہیں دیا تھا؟ جسے شک ہے وہ نومولود لیگ کے مقاصد قیام یا دستوری ضوابط بڑے شوق سے ملاحظہ فرما لے۔ ولادت تو رہی ایک طرف کیا لیگ کی پوری گروتھ، اٹھان اور شباب اپنے وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا مرہونِ منت نہیں؟ یہ اعزاز ٹیڑھی راہوں کے سیدھے مسافر کا ہے کہ جس نے لیگ جیسی اسٹیبلشمنٹ کی باندی کو نیا حوصلہ، بیانیہ اور وژن دیتے ہوئے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے بالمقابل لاکھڑا کیا۔ ”میں ڈکٹیشن نہیں لوںگا...‘‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اتنا بڑا چیلنج کرنے کیلئےجس دل گردے کی ضرورت تھی وہ نواز شریف میں ہی تھا۔ جب بندوق والا بالمقابل کھڑا چلارہا ہو کہ استعفا لکھو اور اُسے جواب مل رہا ہو On my dead body ۔ نواز شریف نے لیگ کے ایک اجلاس میں کہا کہ مجھے پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ سنٹرل ورکنگ کمیٹی یا پارٹی کا نہیں تھا ان لوگوں کا تھا جنہوں نے کہا کہ نواز شریف نے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی اس لیے اسے نااہل کر دو، جیل میں ڈال دو، پارٹی صدارت سے ہٹا دو یہاں تک کہہ دیا کہ نواز شریف کے دستخط سے پارٹی سینٹرز کو ٹکٹ بھی جاری نہیں ہو سکتے۔ جسٹس صدیقی نے کہا میرے پاس جرنیل آئے اور کہا کہ نواز شریف اور مریم کو جیل میں رکھنا ہے باہر نہیں آنے دینا ورنہ ہماری برسوں کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ ثاقب نثار کی آڈیو لیکس میرے پاس محفوظ ہیں جس میں وہ یہ سب باتیں بحیثیت چیف جسٹس کہہ رہا ہے کیا ان لوگوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ مجھے بتائیں جو جج چیف جسٹس بننے والا تھا وہ وقت سے پہلے استعفا دے کر بھاگ کیوں گیا؟ یہ لوگ مجھے ہٹا کر ایسے بندے کو لائے جس نے تباہی مچا دی۔ ہماری سات دہائیوں پر محیط تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ 93ء کی تاریخ 99ء میں پھر دہرائی گئی۔ اپنی داستانِ الم سناتے ہوئے نواز شریف نے سابق کھلاڑی کے گھناؤنے کردار کو آڑے ہاتھوں لیا انکے الفاظ تھے کہ ہم 2013ء میں جیت کر آئے تو حکومت سنبھالتے ہی نواز شریف سب سے پہلے بنی گالہ جاتا ہے اور سابق کھلاڑی سے کہتا ہے کہ پینتیس پنکچرز کی رٹ چھوڑو ملک کی تعمیر و ترقی میں مل کر حصہ ڈالتے ہیں اس وقت دونوں پارٹیوں کی قیادت وہاں موجود تھی خوشگوار ملاقات ہوئی ،جب میں اٹھنے لگا تو مجھے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ہماری بنی گالہ کی سڑک بنوا دیں جو ہم نے پندرہ روز میں بنوا دی لیکن اس شخص نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا مجھے کہا کہ آپ سے تعاون کروں گا دوسری طرف پتہ نہیں کہاں سے اشارہ ملا، لندن میں ظہیر الاسلام طاہر القادری سے ملے اور پھر دھرنے شروع ہو گئے۔ نواز شریف کی یہ ساری گفتگو اتنی بڑی سچائی ہےکہ شاید ہی کوئی پڑھا لکھا بندہ اس سے بے خبر ہو یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ سابق کھلاڑی دھرنے شروع کرنے سے پہلے نواز شریف کو کامیابی کی مبارکباد بھی دے چکا تھا۔ درویش ہمیشہ عرض گزار رہا ہے کہ یہ شخص کرکٹ کا کھلاڑی ہو گا سیاست کا اناڑی ہے، ورنہ سیاست میں 9مئی جیسے واقعات کی گنجائش کسی صورت نہیں تھی جس شخص کو ہٹانے کیلئے یہ خوفناک پلان بنایا گیا تھا کیا وہ ایسا گیا گزرا تھا کہ اسے اسکی سنگینی کا ادراک نہ ہو ۔ نواز شریف نے اپنے خلاف ہونے والی تمام تر زیادتیوں کے باوجود جس ہوشمندی اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا ہے آج اس کے ثمرات سب کے سامنے ہیں۔ یہاں بڑے بڑے تیس مار خاں آئے عسکری بھی عوامی بھی جو بیان بازیاں کرتے رہے کہ وہ تاریخ میں ظالم، دوغلے اور جھوٹے ثابت نہیں ہونا چاہتے مگر نواز شریف کے کرموں کا یہ پھل ہے کہ وہ آج تاریخ اور عوام کے حضور سرخرو ہیں۔ انکے خلاف طوفانِ بدتمیزی اٹھانے والے آج تاریخ اور عوام کے سامنے عیاں ہو چکے ہیں جبکہ میاں صاحب عوامی محبت و خدمت کا بیانیہ لیے ایک مرتبہ پھر سرگرمِ عمل ہیں نواز شریف کی سیاست و قیادت لیگی صدارت کی محتاج نہیں لیکن ڈکٹیٹر ذہنوں اور ان کے ہمنواؤں کو ایکسپوژ کرنے کیلئے پارٹی صدارت سنبھالنا ضروری تھا انہوں نے روایتی لیگ کو جو نیا وژن دیا ہے اس کی بدولت دوبارہ صدارت سنبھالنے پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ حق بہ حقدار رسید۔
واپس کریں