افضال ریحان
درویش کے نزدیک کھلاڑی کی فرد جرم خاصی طویل ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے مذہبی چورن اس فراوانی سے بیچا ہے کہ سکہ بند مولویوں پر بھی بازی لے گیا ، پھر اس شخص نے طاقتوروں کے جس طرح ناز نخرے اُٹھائے ، کیا اس نے کسی اور کا ریکارڈ توڑ دیا ہے یا نہیں؟ اس پر بھی بات ہوسکتی ہے۔ دورخے پن کا اول ایوارڈ کسے ملنا چاہیے؟ یہ بھی ڈبیٹ ایبل ایشو ہے۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ اسکی طاقتوروں سے لڑائی آج بھی جمہوری اصولوں، آئینی اقدار یا شخصی حقوق کی بحالی کیلئے ہرگز نہیں بلکہ اندر کی بات یہ ہے کہ وہ ظاہری طور پر نیوٹرلز ہونے والوں کو کسی بھی طور نیوٹرلز نہیں دیکھنا چاہتا اس کا دعویٰ ہے کہ وہ حق کا آخری علمبردار ہے اس لیے اگر تم لوگ میرے ہمنوا نہیں ہوتو پھر تم لوگ انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں ہو۔ اس تنقیدی تمہید کے ساتھ آج درویش ایک سچائی یا حقیقت بیانی پر سابق کھلاڑی کو شاباش دینا چاہتا ہے۔ انسان اگر کسی کی مخالفت کرے تو وہ اصولی ہونی چاہیے محض مخالفت برائے مخالفت کم ظرفی کہلائے گی۔ ہمارے سابق کھلاڑی نے ڈنکے کی چوٹ کہا ہے کہ ’’ستراکتہر میں بنگالیوں پر ہمارے طاقتوروں نے جو ظلم و جبر روا رکھا وہ قابلِ مذمت ہے۔
شیخ مجیب الرحمن غدار نہیں ،منتخب قومی رہنما تھے ‘‘۔کسے معلوم نہیں کہ ستر کے انتخابات میں شیخ صاحب تین سو کے ایوان میں واضح اکثریت کے ساتھ ایک سو باسٹھ سیٹیں حاصل کرتے ہوئے حکومت سازی کے حقدار تھے جب بنگالی عوام کا واضح مینڈیٹ قبول کرنے کی بجائے ان کے خلاف خونیں آپریشن شروع کردیا گیا اتنی بھاری میجارٹی حاصل کرنیوالے کو اقتدار سونپنے کی بجائے مغربی پاکستان کی جیلوں میں بند رکھا گیا اور ہارنے والے کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھادیا گیا تو یہ جمہوریت اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ہی نہیں گھناؤنا وار تھا جس کے مرتکبین کو سخت سزائیں ملنی چاہیے تھیں۔ جسٹس حمود الرحمن جیسے دیانتدار چیف جسٹس کی قیادت میں جو کمیشن بنا اس نے اتنی عرق ریزی سے جوتا ریخی رپورٹ پیش کی، بجائے اس کے کہ اس کی مطابقت میں کاروائی کرنے کے، اس رپورٹ کو ہی سردخانے دال کر ناقابلِ اشاعت بنادیا گیا۔ بلاشبہ اس ظلم میں اس دور کا مداری بھی برابر کا شریک تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کی سچائی و مظلومیت کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ ہماری وہ تنظیم جس نے ”البدر‘‘ اور ”الشمس“ جیسی عسکری تنظیموں کے ذریعے بنگالیوں ستم ڈھائے،آج وقت نے ان کی قیادت کے منہ سے یہ الفاظ نکلوائے ہیں کہ ہمارے مینڈیٹ کے ساتھ وہ ظلم نہ کرو جو ستر میں شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔
آج ہمارے بہت سے بھونپو کھلاڑی کو اس کی واحد سچائی پر بھی مطعون کررہے ہیں اور اس پر غداری کے الزامات لگاتے نہیں تھکتے، ان لوگوں کو شاید معلوم نہیں کہ جب خود ن لیگ کے صدرمیاں نوازشریف کے عوامی مینڈیٹ کے ساتھ بھی وہی شیخ صاحب جیسا سلوک کیا گیا تھا تو وہ بھی ابل پڑے تھے کہ یہ ملک الیکشن کی وجہ سے نہیں بلکہ الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ٹوٹا تھا میرے ساتھ شیخ مجیب الرحمن جیسا ظلم روا نہ رکھا جائے۔زندہ اقوام اپنے ماضی کے واقعات و سانحات سے سیکھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے ستر کے سانحے سے کیا سیکھا؟ اسکے بعد آج تک یہاں جتنے بھی الیکشن ہوئے، ہر انتخاب کے بعد یہاں دھاندلی کی آوازیں کیوں اٹھتی ہیں؟؟ ہماری ہمسائیگی میں دنیا کی سب سے بڑی ڈیموکریسی کس خوبصورتی سے چل رہی ہے جہاں امریکا و یورپ کے مجموعی ووٹو ں سے بھی زیادہ اٹھانوے کروڑ سے بھی زائد ووٹر اپنا حقِ رائے دہی آزاد فضا میں استعمال کرتے ہیں، حکومتیں آتی جاتی اور بدلتی رہتی ہیں، انتخابی الائنسز تشکیل پاتے ہیں بحثیں اور تقاریر ہوتی ہیں ایک دوسرے کے خلاف سخت سے سخت آوازیں بھی اٹھتی ہیں مگر حرام ہے جو کبھی دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ایجی ٹیشن کی سیاست ہوتی ہو۔سابق کھلاڑی سے ہمیں ایک سو ایک اختلافات ہو سکتے ہیں میڈیا کو پورا حق ہے کہ اس کے جعلی و جھوٹے دعوؤں کے خلاف پوسٹ مارٹم کرے مگر جہاں وہ سچا ہو وہاں اسے سچا کہنا بھی اتنا ہی لازم ہے۔ اگر اس نے شیخ مجیب الرحمن کو جمہوری لیڈر اور متحدہ پاکستان کا پاپولر رہنما قراردیا ہے تو کوئی جرم نہیں کیا، سچائی کا ہی اعلان کیا ہے اور اس میں یہ سبق پنپتا ہے کہ آئندہ کسی بھی پاپولر قیادت کے ساتھ اس نوع کا وتیرہ نہ اپنایا جائے۔
شیخ صاحب کے اس دنیا سے چلے جانے کے باوجود بنگالی قوم کی اپنے لیڈر کے ساتھ محبت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اس کی بیٹی شیخ حسینہ کو طویل مدت سے اپنی قیادت سونپ رکھی ہے جن کی جمہوری حکمرانی اس وقت پوری مسلم دنیا میں مثالی قراردی جاتی ہے، اس بی بی نے اپنے ملک سے ملاملٹری الائنس کا ہی خاتمہ نہیں کیا بلکہ مذہب کے سیاسی استعمال کو پوری طرح روکتے ہوئے اپنی قوم کو تعمیر و ترقی کے سفر پر گامزن کردیا ہے۔ جن بنگالیوں کو کبھی یہاں بھوکے بنگالی کہاجاتا تھا ، آج اسی بنگال کا گروتھ ریٹ ہم سے کہیں بہتر ہے، ہم لوگ آج بھی بیگانے اشاروں پر ’’عزم استحکام‘‘ کے نام پر’’عدم استحکام‘‘ پر تلے بیٹھے ہیں، ہم کیوں اپنی قومی خودکشی پر تلے بیٹھے ہیں، ماضی میں بنگالی عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئی، خدارا اب چوبیس کروڑ انسانوں پر کچھ ترس کھاؤ۔
واپس کریں