افضال ریحان
یہ دنیا تضادات کا مجموعہ ہے۔ ہر ملک کے اپنے تضادات ہوتے ہیں جو تاریخی واقعات، تعصبات، معاشی مفادات و نقصانات اور مذہبی رجحانات و ثقافتی میلانات کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ ہم تضادستانیوں کا بنگلہ دیش اور ہے اور وہاں بسنے والے بنگالیوں کا بنگلہ دیش بالکل مختلف ہے۔ جیسے ہم پاکستانیوں کیلئے افغانستان کا تاثر بالکل اور ہے اور وہاں بسنے والے افغانیوں کا اپنے بارے میں تاثر بالکل ہی الگ ہے۔ یہی حال ایران کے بارے میں ہے، ہم ایران کے بارے میں اپنے تاثرات کی بنیاد اپنے تعصبات اور میلانات پر رکھتے ہیں اور بالکل اسی طرح ایرانی ہمارے بارے میں اپنی رائے اپنے تعصبات اور تاریخی تجربات پر رکھتے ہونگے۔ جو شخص اور جو ملک ان تضادات کو کم سے کم کرے اسکی رائے وزنی کہلاتی ہے اور جو ملک یا شخص ان تضادات کی روشنی میں سوچے اسکی رائے اتنی ہی جانبدارانہ اور غیر حقیقت پسندانہ ہو جاتی ہے۔ افغانستان کیلئے ہم نے اپنے تئیں بہت کچھ کیا، دو جنگیں لڑیں مگر کیا افغانی ہمارے احسان مند ہیں؟ بالکل نہیں، گویا ہماری توقعات اور تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش میں جو تبدیلیاں آئی ہیں انکے بارے میں ہماری تضادبیانیاں بہت ہی دلچسپ، متضاد اور قطعی جانبدارانہ ہیں ۔
بنگلہ دیش میں ایک غیر منتخب ٹیکنوکریٹ حکومت آ چکی ہے جسے فوج اور طلبا مظاہرین کی حمایت حاصل ہے۔ فوج جس منتخب حکومت کو سپورٹ کر رہی تھی اب اس سے دستبردار ہو گئی ہے۔ حسینہ واجد بھارت جا چکی ہیں اور بنگلہ دیش ابھی تک مظاہرین کے کنٹرول میں ہے۔ اس حقیقت کو دیکھنے کے اپنے اپنے رنگ ہیں۔ جماعت اسلامی کے حامی تضادستانی خوش ہیں کہ جماعت کے لیڈروں کو پھانسیاں دینے والی حسینہ واجد سیاسی انجام کو پہنچ چکی ہیں۔ تضادستانی عمومی طور پر خوش ہیں کہ بھارت کی حامی حسینہ واجد چلی گئیں اور اب جو بھی آئے گا وہ پروپاکستان ہو گا، کئی خوش فہم تو اس حد تک چلے گئے کہ اب بنگلہ دیش اور پاکستان کو فوراً کنفیڈریشن بنالینی چاہئے، مقتدرہ اور اسکے حامی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ جو کہتے تھے کہ دو قومی نظریہ دفن ہو گیا بنگلہ دیش کے حالیہ واقعات کے بعد انہیں منہ چھپانے کو جگہ نہیں مل رہی۔ انصافی تضادستانیے کل تک اپنے لیڈر کو آج کا شیخ مجیب قرار دیتے ہوئے فوج کو ظالم کہہ رہے تھے۔ بنگلہ دیش کی آج کی شیخ مجیب، حسینہ واجد اقتدار چھوڑ کر بھاگیں تو یہ انصافی تضادستانیے یوٹرن لیکر اب یک لخت اپنا تقابل طلبا رہنماؤں سے کرنے لگے ہیں اور اپنی تحریک کو بنگلہ دیش کی طلبا تحریک کے مماثل قرار دیکر یہ پیش گوئیاں کر رہے ہیں کہ 2ماہ کے اندر تضادستان بھی بنگلہ دیش بننے والا ہے اور یہاں کے حکمرانوں اور جرنیلوں کو حسینہ واجد کی طرح ملک سے بھاگنا پڑے گا۔ افسوس یہ ہے کہ تضادستانیوں کی بنگلہ دیش کے حوالے سے یہ ساری کی ساری تشریحات صریحاً غلط ہیں اور ان تشریحات کی بنیاد غیر جانبدارانہ اور منطقی تجزیے نہیں بلکہ ہمارے اپنے اپنے فکری میلانات ہیں۔
تلخ حقائق جن سے ہم آنکھیں چراتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ آج سے 53سال پہلے بنگلہ دیش ایک آزاد اور خود مختار ملک بن چکا ہے، جس نے اپنے قیام کے بعد اپنی آبادی پر تضادستان سے بہتر کنٹرول کیا ہے اور اپنی معیشت کو ہم سے کہیں بہتر کر لیا ہے، سیاست میں البتہ وہ بھی ہمارے جیسے ہی نکلے۔ جمہوریت میں فاشزم کی آمیزش یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بڑی خونیں تھی اور اس سے نہ ہم تضادستانیوں اور نہ ہی بنگالیوں کی کوئی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ جنرل ایوب سرعام کہتے تھے مغربی پاکستان کی ترقی میں بنگالی رکاوٹ ہیں، ہم نے انکی اکثریت کے باوجود ان سے پیریٹی یا برابری کا اصول منوایا اور جب آخر کار انہیں 1970ء میں آبادی کے مطابق نشستوں کا حق ملا تو ہم تضادستانیوں نے انہیں اقتدار دینے سے انکار کر دیا۔ بنگالی احساس محرومی سے بڑھ کر مظلومیت کو چھونے لگے تھے اور ہم انہیں بھائی کی بجائے غلام رکھنے پر مصر تھے۔تشدد، اغوا، قتل، عصمت دری اور فسادات تک، کیا کیا نہیں ہوا۔ انسانی خون پانی سے نہیں دُھلتا دُھل بھی جائے تو اس کے نشان دلوں پر تادیر قائم رہتے ہیں۔ اس لئے ہم تضادستانیوں کو نتائج تک پہنچنے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ ’’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق بھی بنگلہ دیش میں دیکھنا چاہئے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے پھر نتائج اخذ کرنا درست ہو گا۔
ابھی تو ہمارے افغانستان میں لگنے والے زخم تازہ ہیں ان سے گاہے گاہے خون رِستا رہتا ہے، ہم نے پھولوں کی تمنا کی تھی وہاں سے تیر برسائے جا رہے ہیں کہیں تو ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں کہ افغانستان کیلئےسب کچھ کرنے کے باوجود نتائج ہمارے حق میں نہیں بلکہ ہمارے خلاف نکلے ہیں، ہمیں سوچنا ہے کہ ہم نے کونسی ایسی فصل کاشت کی تھی جس کا پھل زہر آلود ہے۔
کسی کو یاد ہو نہ یاد ہو کہ جب ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت ختم ہوئی تو ہم نے خوشی کے شادیانے بجائے تھے، ہم نے کابل جاجاکر مجاہدین کی ’’نصرت‘‘ کی اور اپنی طرف سے سکھ کا سانس لیا اور سوچا کہ اب تو جنرل حمید گل کے بقول ہمیں سٹریٹجک گہرائی مل گئی ہے مگر اسکے بعد افغانستان میں امن نہیںآیا اور اگر وہاں کچھ حالات ٹھیک بھی ہوئے ہیں تو تضادستان کے بارے میں انکے خیالات اچھے نہیں ہو سکے۔ جنرل فیض نے امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا پر مسکراتے ہوئے کہا تھا ’’اب سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘ اور وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا ’’غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں‘‘ کیا واقعی سب کچھ ٹھیک ہو گیا؟ اور کیا امریکہ کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹنےکے بعد پاکستان پر حملوں کا آغاز نہیں ہو گیا؟ آئیے مان لیں کہ ہمارے اندازے غلط نکلے کیونکہ ہمارے فیصلے جوش کے تھے ہوش کے نہیں تھے۔ اس ناہنجار نے 7فروری کو ’’بنگلہ دیش ماڈل آ رہا ہے‘‘ کے عنوان سے سرکاری سوچ اور منصوبے کو افشا کیاتھا اور اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ بنگلہ دیش اور ہے اور پاکستان اور؟ یہاں کی مقتدرہ خارجہ، داخلہ اور سیاسی امور میں اس قدر دخیل ہے کہ سیاسی حکومت لاچار اور بے بس ہو جاتی ہے، بدقسمتی سے وہی نتیجہ نکل رہا ہے کہ سیاسی حکومت بااختیار ہے نہ اسے بنگلہ دیش کی طرح عدلیہ اور فوج کی حمایت حاصل ہے بلکہ وہاں تو فوج نے مظاہرین کا حتمی طور پر ساتھ دیا ہے ہمیں دنیا کے ماڈل اپنانے کی بجائے پاکستانی آئین کو ماڈل بنانا چاہئے۔ فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ جو بھی سیاسی حکومت ہو اسے بااختیار ہونا چاہئے۔ عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہئے اگر ایسا نہ ہوا تو ضروری نہیں کہ ہم بنگلہ دیش بنیں بلکہ اندیشہ ہے کہ ہم اُس سے بھی کہیں بڑے خونیں بحران میں چلے جائیں! بنگلہ دیش میں سرعام پھانسیاں دی جا رہی ہیں ہجوم کی حکمرانی ہے۔ فرانس، ایران، روس، لیبا اور مصر میں جہاں بھی ایسا ہوا انجام اچھا نہیں ہوا یہاں بھی تبدیلیاں پرامن اور ارتقائی ہوں تو بہتر ہے تشدد کا راستہ سوچنے والوں کو دنیا سے سیکھنا چاہئے بغاوت اور انقلاب نہیں، صرف اور صرف جمہوری راستہ ....!
واپس کریں