دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاک ہند نفرت کو امید میں بدلیں مگر کیسے؟
افضال ریحان
افضال ریحان
پاکستان اور ہندوستان کی قیادت کے درمیان پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے۔ پاکستان میں تین بار منتخب ہونے والے سابق وزیراعظم، ن لیگ کے صدر نوازشریف نے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو حالیہ انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن میں آپ کی کامیابی بھارتی عوام کے آپ پر اعتماد کی عکاس ہے۔ آئیں نفرت کو امید سے بدل کر دو ارب انسانوں کی ترقی کیلئے مواقع پیدا کریں ۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بھی انڈین پرائم منسٹر کو مبارکباد دیتے ہوئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی نے نوازشریف اور شہبازشریف کو اپنے جوابی پیغام میں کہا ہے کہ آپ کی نیک تمناؤں کا شکریہ، بھارتی عوام ہمیشہ سے امن، سلامتی اور ترقی پسند خیالات کے ساتھ کھڑے رہے ہیں بھارتیوں کی سلامتی اور خوشحالی ہمیشہ میری ترجیح رہے گی۔انڈیا اور پاکستان کی قیادتوں کے درمیان مبارکباد کے تہنیتی پیغامات کو خوش آئند قراردیا جائے گا بالخصوص نوازشریف کے یہ الفاظ کہ ’’ آئیں نفرت کو امید سے بدل کر دو ارب انسانوں کی ترقی کیلئے مواقع پیدا کریں ۔‘‘ تاہم خارجہ پالیسی میں حساسیت کا تقاضا یہ تھا کہ پاکستان دیگر بیشتر ہمسایہ ممالک کی طرح نریندرمودی کو مبارکباد کا پیغام بھیجنے میں اتنی دیر کرنے کی بجائے شتابی دکھاتا کیونکہ 4جون کو ہی یہ واضح ہوچکا تھا کہ اپوزیشن اتحاد کی حاصل کردہ کل 232 نشستوں کے بالمقامل مودی کا حکمران اتحاد NDA 294 سیٹیں جیت چکا تھا اور یہ سمپل میجارٹی سے کہیں زیادہ کامیابی تھی۔ بیشتر عالمی رہنماؤں نے کامیابی کے فوری بعد مودی کو مبارکباد کے پیغامات ارسال کردیے تھے لیکن ہمارا دفتر خارجہ روایتی سہل پسندی کا شکار رہا شائداس امید پر کہ شاید مودی مخالفین کی دال گل جائے جس کا نقصان یہ ہوا کہ وزیراعظم ہند کی تقریب حلف برداری میں جس طرح دیگر سات ہمسایہ سارک ممالک بشمول سری لنکا، مالدیپ اور بنگلہ دیش کی قیادتیں شریک ہوئیں اس طرح پاکستان کو مدعو ہی نہیں کیا گیا حالانکہ 2014ء میں جب نوازشریف وزیراعظم تھے انہیں نہ صرف باضابطہ طور پر بلایا گیا بلکہ انہوں نے شریک ہوکر اپنے ملک کی نیک نامی میں اضافہ کیا تھا، جس کی لحاظ داری میں پرائم منسٹر مودی خوشگوار ماحول میں لاہور یاترا پر آگئے تھے جبکہ مابعد ہمارے کھلاڑی کو مسلسل یہ شکایت ہی رہی کہ وزیراعظم مودی میرا فون تک نہیں سنتے۔ اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے انڈیا سے تجارتی و سفارتی تعلقات انتہائی خوشگوار ہوں تو پھر ہم دونوں ممالک کو ان روایتی منافرتوں سے اوپر اٹھنا ہوگا جن کی طرف نوازشریف نے اشارہ کیا ہے۔
درویش کی نظر میں تلخ حقیقت یہ ہے کہ شائد ہم یا ہماری مقتدرہ ہر پل بدلتی عالمی صورتحال اور خطے کی حقیقی سچائیوں کو سمجھنے یا ان حقائق کی مطابقت میں آگے بڑھنے کی صلاحیت سے عاری ہے، ہم لوگ اپنی خود ساختہ خواہشات اور ناممکن العمل مطالبات کے خول میں بند ہیں اور کمزور سیاسی حکومتوں میں اتنی جان نہیں کہ وہ خطے کی بدلتی جیو پولیٹکل و سٹرٹیجکل سچویشن کو سمجھتے ہوئے خالصتاً نیشنل انٹرسٹ میں کوئی بولڈ قدم اٹھا سکیں لہٰذا جس طرح ہم لوگ چھ سات دہائیوں سے پانی میں مدھانی چلارہے ہیں اسی طرح چلاتے رہیں گے، رسمی تلخ و شریں لفاظی ہوتی رہے گی اور پرنالہ جہاں ہے وہیں رہے گا۔ اس سب کے باوجود موجودہ حالات میںبہتر یہی ہے کہ ہم سب لوگ یعنی ہمارا قومی میڈیا اپنی مقتدرہ کو اس حوالے سے اعتماد میں لے۔
دیکھا جائے تو اس وقت خود ہماری عسکری اسٹیبلشمنٹ میں بھی اس ایشو پر کچھ ذمہ داران کا غور ہورہا ہےکہ اتنا خون خرابہ آخر کب تک؟ یہ سابق آرمی چیف ہی تھے جنہوں نے ببانگ دہل یہ کہا تھا کہ آج کے دور میں تنہا ممالک نہیں خطے ترقی کرتے ہیں ۔ ایسی فضا میں ہمارے ایک وفاقی وزیر نے جو بیان دیا ہے وہ نواز شریف کے بیان کی روح کے بھی خلاف ہے اور پاکستانی خارجہ آفس کے موقف کی بھی نفی کرتا ہے ،ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی مقتدرہ اور حکومت مل کر بھارت کے ساتھ ایک نیا راستہ کھولیں۔
واپس کریں