افضال ریحان
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین محترم ڈاکٹر راغب نعیمی نے سانحۂ سوات کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی گھناؤنا غیر شرعی فعل قراردیا ہے اور یہ کہا ہے کہ کسی بھی فرد یا گروہ کو شرعی، قانونی اور اخلاقی طور پر کوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے شخص کو سزا دے خود ہی منصف اور مدعی بننے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس قرآن کا نام لے کر سوات میں ایک انسان کو زندہ جلا دیا گیا ہے۔ اسی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ ’’جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر ڈالا‘‘۔ کچھ ہی عرصہ قبل سرگودھا میں اقلیتی برادری کے ایک فرد نذیر مسیح کو توہین قرآن کے نام پر قتل کر ڈالا گیا جس کے صدمے میں اس کی شریک ِ حیات بھی راہئ ملک عدم ہو گئی۔ اس ملک میں اس نوع کے سانحات اب معمول بنتے جا رہے ہیں اور بلا سفیمی کے واقعات میں وقفہ بھی روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک سانحہ پر بحث ختم ہوتی ہے تو کوئی نیا وقوع پذیر ہو جاتا ہے پوری دنیا میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ بلاسفیمی کے واقعات آخر سب سے زیادہ اِس ملک میں ہی کیوں ہوتے ہیں؟ دیگر چھپن مسلم ممالک میں اس نوع کی حرکات کیوں نہیں ہوتی ہیں؟ مقدس دین کو سب سے زیادہ خطرہ پاکستان میں ہی کیوں لاحق ہےاور پھر دین کے محافظ ہمارے بازاروں میں دندناتے یہ جہلاہی کیوں ہیں؟ علما کرام تو اکثر و بیشتر اس کی مذمت کرتے پائے جاتے ہیں وہ بہ تکرار یہ فرما رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا دین تو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بے گناہ کی جان لی جائے۔ واضح رہے کہ قانون کا متفق علیہ بنیادی اصول ہے کہ ہر شخص اس وقت تک بے گناہ ہے جب تک ملکی عدالتوں میں یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ وہ گنہگار ہے لیکن یہ نکتہ بپھرے جنونی گروہوں کو کون سمجھائے؟ کوئی ثبوتوں کی طرف نہیں جاتا محض کسی پر الزام لگ جانا اور اس کی تشہیر ہو جانا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ قابو آیا شخص لاکھ دہائیاں دے، کلمے پڑھے، کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔ درویش بارہا سوچتا ہے کہ بدترین سوسائٹی میں بھی جب اس نوع کی کیفیت ہوجائے تو کم از کم ہجوم دو حصوں میں بٹ جاتا ہے ایک مارنے والا ہوتا ہے تو دوسرا چھڑوانے یا بچانے والا کہ دیکھو جلد بازی نہ کرو کہیں یہ بے گناہ ہی نہ ہو اور پھر ظلم کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ تم کیسے مسلمان ہو کہ ایک بے گناہ انسان پر ظلم ڈھاتے ہوئے اسکی جان لیتے ہوئے ذرا تمہارا ضمیر ملامت نہیں کرتا۔ اتنا تشدد کہ مشال خان کی ماں نے کہا کہ جب میں نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا تو ساری ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ درویش کو رسمی بھاشن اچھے نہیں لگتے، اصلیت یا روٹس تک پہنچنے کی کوشش لازم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب چوہے بلی کا کھیل ہے یہ ہجوم جو لاؤڈ اسپیکر سے کیے گئے اعلان پر ہزاروں کی تعداد میں اکٹھا ہو جاتا ہے جنہیں تم لوگ اسلام سے ناواقف جہلا گردانتے نہیں تھکتے ہو، سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے ان کی ذہن سازی کیونکر ہوئی ہوتی ہے؟ اور کس نے کررکھی ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ دیگر مسلم ممالک بھی ہیں، حجاز مقدس سے بڑھ کر تو کوئی نہیں، جو اسلام کی جنم بھومی ہے آخر وہاں اس نوع کے بھاشن کیوں نہیں پھیلائے جاتے؟ اور وہاں کے اہل ایمان میں کیوں ہم مسلمانوں جیسا ایمانی جوش نہیں؟ ہر کوئی بیان کرتا ہے کہ حرم شریف اور مسجد نبویؐ میں عرب مسلمان قرآن کو زمین پر رکھ کر اس کا سرہانہ بناتے ہوئے سوجاتے ہیں جبکہ یہاں ہماری مساجد میں کوئی قسمت کا مارا اہل عرب کا یہ اسلوب اپنائے تو توہین کا طوفان اٹھ کھڑے ہو گا۔ وجہ اس کی محض یہ ہے کہ وہاں کسی بھی نوعیت کے جنون کو ریاست نتھ ڈالتی ہے جبکہ یہاں ریاست انہیں پالتی ہے تاکہ بوقتِ ضرورت انہیں سیاسی قوتوں کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ ہماری اس قومی بربادی میں ہمارا میڈیا بھی برابر کا ذمہ دار ہے جس نے مذہبی جنونیت کے سامنے کامل پسپائی اختیار کر رکھی ہے۔ ہمارا میڈیا جب تک حریتِ فکر اور آزادئ اظہار کو سماج کی سب سے بڑی قدر و ضرورت کی حیثیت سے اپنا اور منوا نہیں لیتا، جنونیت تلوار بن کر سماج پر لٹکتی رہے گی۔ کوئی مانے نہ مانے، جب بھی ہم نے جہالت کی اس دلدل سے نکلنا ہے تو بالآخر ہمیں سیکولر اپروچ کے دامن میں پناہ لینا پڑے گی۔ آخر میں درویش اس ملک کے ذمہ داران کی خدمت میں یہ سوال رکھنا چاہتا ہے کہ وہ جس نوع کا دعویٰ کرتے ہیں ہم عزم استحکام کے تحت دہشت و جنونیت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اگر وہ اس حوالے سے مخلص ہیں تو اتنا حوصلہ دکھائیں کہ سعودی عرب اور مصر و ترک حکومتوں سے رہنمائی لیتے ہوئے پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ رکھیں، قومی میڈیا میں اس پر کھلا مباحثہ و مکالمہ کروائیں۔ یہاں تو سانحہ پشاور کے بعد جو ضوابط طے کیے گئےتھے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا تھا اس کو بھی کسی سرد خانے میں ڈال دیاگیا ہے۔
واپس کریں