عطاالحق قاسمی
محترم ایڈیٹر صاحب (اے او اے) گزارش ہے کہ بندہ نے اپنے کالم کیلئے آپ کے اخبار کو منتخب کیا ہے۔اِس ناچیز کو صرف اردو پر نہیں، انگریزی پر بھی عبور حاصل ہے جس کا ایک ادنیٰ سا ثبوت میں نے خط کے آغاز میں ’’اسلام علیکم‘‘ کی بجائے ’’اے۔ او۔ اے‘‘ لکھ کر دے دیا ہے۔ گزارش ہے کہ موبائل فون آنے سے پہلے فدوی محلے میں نامہ و پیام کی خدمت بھی انجام دیتا رہا ہے چنانچہ محلے کی بیبیاں اپنے خط مجھ سے لکھوایا کرتی تھیں اور جو جواب انہیں موصول ہوتا تھا وہ پڑھنے کیلئے بھی مجھے ہی بلایا جاتا تھا۔ میں نے انہیں کبھی نہیں جتلایا کہ وہ خط بھی میرا ہی لکھا ہوا ہے ۔مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خادم کی اِن ہمہ جہت خصوصیات کے سبب پاکستان کے تمام اردو اور انگریزی اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان ایک عرصے سے اپنے دوستوں سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ مجھ سے رابطہ کریں اور ان کے اخبار میں کالم لکھنےکیلئے مجھے آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں مگر ان کے کسی دوست نے بوجہ حسد آج تک مجھ سے رابطہ نہیں کیا! چنانچہ اب میں بقلم خود آپ کے اخبار کیلئے اپنی خدمات بطور کالم نگار پیش کر رہا ہوں مجھے اندازہ ہے کہ میری یہ پیشکش آپ کیلئےحد درجہ خوشی کا باعث ہو گی اور میں انشاء ﷲ زندگی کے آخری سانس تک آپ کو یہ خوشی مہیا کرتا رہوں گا۔
ایڈیٹر صاحب! گزارش یہ ہے کہ بندہ اپنی طبیعت کے انکسار کی وجہ سے کوئی پیشگی شرائط پیش نہیں کرے گا صرف یہ عرض کرے گا کہ موضوعات کا ایک ملبہ ہے جن کے نیچے وہ دبا ہوا ہے اور اس کے سبب وہ یہ ضروری سمجھتا ہے کہ ہفتے میں پورے سات دن کالم لکھا جائے۔ ویسے بھی مجھے علم ہے کہ آپ کے بیشتر کالم نویس محض آپ کی بندہ پروری کی وجہ سے کالم نہیں لکھ رہے بلکہ خانہ پری کر رہے ہیں میں ان سب کے خالی خانے پُرکروں گا تاکہ آپ کے قارئین کو ایک ہی کھڑکی سے وہ سب کچھ مل جائے جو وہ چاہتے ہیں اور مجھے یقینِ کامل ہے کہ وہ ایک عرصہ سے کسی مرغ مسلم قسم کے کالم کے انتظار میں تھے۔ آپ سمجھیں اﷲ نے ان کی سن لی ہے آپ اگر دوسرے کالموں کی اشاعت بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو وہ آپ کی مرضی ہے آپ اپنے ان کالم نگاروں کو پالتے رہیں تاہم میں اپنی بات پر قائم ہوں بلکہ درمیان میں اخبارات کی جو تعطیلات آتی ہیں ان سے اگلے دن ایک کی بجائے میں دو بلکہ تین کالم بھی لکھنے کو تیار ہوں تاکہ اس دوران قارئین کو جو میری کمی محسوس ہوتی رہی ہو گی اس کی تلافی ہو سکے۔
ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ میں بھاؤ تاؤکا قائل نہیں ہوںمجھے علم ہے کہ آپ مجھے میرے کالم کا منہ بولا معاوضہ دینے کو تیار بیٹھے ہیں تاہم میں معتدل مزاج انسان ہوں سو عرض کئے دیتا ہوں کہ میں فی کالم پچیس روپے سے کم یا زیادہ قبول نہیں کروں گا۔ آپ میرے کالموں کی تعداد کے مطابق ان کا معاوضہ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو ایزی پیسہ کے ذریعے ارسال کر دیا کریں۔ اس حوالے سے ایک گزارش اور کرنا ہے کہ آپ براہ کرم میرے معاوضہ کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتائیں کہ ایک تو قبیلے میں میرے حاسدین کی تعداد بہت زیادہ ہے ہر وقت ان کی نظر لگنے کا احتمال ہوتا ہےاور دوسرے ان دنوں انکم ٹیکس اور دوسرے ادارے بھی شکار کی تلاش میں رہتے ہیں۔ امید ہے آپ اس خاکسار کی عزت و ناموس کا خیال رکھیں گے۔مجھے ایک بات اور عرض کرنی ہے اور وہ یہ کہ میں ’’وفاداری بشرطِ اُستواری‘‘ کا قائل ہوں، چنانچہ میری نظر میں ادارے کا مفاد اولین حیثیت رکھتا ہے۔ اگر آپ کبھی محسوس کریں کہ میری کوئی تحریر ادارے کے مفاد میں نہیں تو آپ سیاق و سباق کا خیال رکھے بغیر جہاں سے چاہیں کاٹ دیں۔ بلکہ اگر کبھی آپ محسوس کریں کہ پورا کالم کاٹنا ضروری ہے تو بلا تردد کاٹ ڈالیں۔ البتہ کالم کا عنوان، اس کےساتھ میرا نام اور میری تصویر جوں کی توں رہنے دیں یہ کاٹنے یا تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ورنہ قارئین اس وسوسے کا شکار ہو سکتے ہیں کہ شاید کسی شیطان صفت کے بہکانے پر میں نے ادارے سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ ایک عرض اس کے علاوہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ادارے اور اس سے وابستہ افراد کی عزت میری عزت ہے چنانچہ اگر کوئی شریر اس حوالے سےاخبار یا اس کے کسی رکن کے بارے میں یاوہ گوئی کرے تو آپ کا کام صرف مجھے بتانا ہے اس کے بعد وہ جانے اور میں جانوں،میں اپنے کالم میں اس کے پرخچے اڑا کر رکھ دوں گا سچ پوچھیں تو میں ادارے کی محبت کے باعث چاہوں گا کہ اس حوالے سے مجھے اشارہ کرنے کی بھی ضرورت نہیںآپ ایڈیٹر کی سیٹ پر بیٹھے ہیں اور ایک انصاف پسند اور جمہوری قدروں سے آشنا شخصیت کی مانند اس طرح کی کسی صورتحال میں میرے لکھے کالم کو اس روز دفع کریں اس کی جگہ خود کالم لکھ دیں ،میں جیسا کہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں اس پر میرے کالم کا عنوان اس کے ساتھ میرا نام اور میری تصویر ضرور لگا دیا کریں کہ میرا قلم میرے ادارے کی امانت ہے!
اور ہاں ایک بات اور میں چونکہ بنیادی طور پر ایک درویش صفت انسان ہوں چنانچہ خطے میں ہونے والی تبدیلیوں خصوصاً پاکستان کی مخصوص صورتحال کے حوالے سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتامجھے صرف پاکستان عزیز ہے یہاں کوئی بھی نظام نافذ ہو یا نافذ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہو میں اس میں سب سے پہلے پاکستان کا مفاد دیکھوں گا۔ چنانچہ محترم ایڈیٹر صاحب میں اپنا یہ اختیار بھی آپ کے سپرد کروں گا۔ آپ میرے کالم کو اس اعلیٰ و ارفع مقصد کیلئے حسبِ خواہش استعمال کر سکتے ہیںمجھے آپ کی حب الوطنی پر بھی مکمل اعتماد ہے چنانچہ مجھے یقین ہے کہ میری کسی تحریر کی وجہ سے مجھے کوئی غدار نہیں کہہ سکے گا۔ سو گزارش ہے کہ ان معروضات کے مطالعہ کے بعد مجھے فوری طور پر مطلع کریں کہ میں آپ کے اخبار کیلئے کالم کب ارسال کروں؟ براہِ کرم اس معاملے میں تاخیر سے کام نہ لیں کہ کہیں مجھے شیطان بہکا دے اور میں اپنا ارادہ تبدیل کر بیٹھوں!
واپس کریں