عطاالحق قاسمی
میں نے ایک بڑے آدمی سے پوچھاآپ ٹیلیفون، بجلی، پانی اور گیس وغیرہ کے بلوں کی ادائیگی کیلئے کبھی شدید دھوپ میں ایک لمبی قطار میں کھڑے ہوئے ہیں؟بڑے آدمی نے حیرت سے پوچھا”کیا یہ بل ادا بھی کرنے ہوتے ہیں؟“ میں نے جواب دیا”ہم لوگوں کو تو ادا کرنا پڑتے ہیں، آپ کبھی کبھی تو ادا کرتے ہی ہوں گے، کیا اس کام کیلئےآپ خود لائن میں لگتے ہیں؟“ بڑے آدمی نے کہا”لائن میں لگیں میرے دشمن !ہمارے کمی کمین آخر کس مرض کی دوا ہیں‘‘؟ میں نے پوچھاکیا آپ کو کبھی تھانے جانا پڑا ہے اور وہاں تھانیدار نے دو چار گالیوں کے ساتھ اپنے قدموں میں بیٹھنے کیلئےکہا ہے؟ بڑا آدمی غصے سے بولا”کس کی مجال ہے، وہ مجھے تھانے میں بلائے اور اس طرح کا سلوک کرے، یہ سب ذلتیں آپ لوگوں کیلئےہیں“۔ میں نے پوچھاآپ کو کبھی عدالتوں کے چکر لگانا پڑے ہیںاور عدالتی اہلکاروں کے ذلت آمیز رویے اور ان کی فرمائشوں سے کبھی پالا پڑا ہے؟ بڑا آدمی بولا’’ تم کیسی باتیں کررہے ہوں کیوں ہمیں کھینچ کھانچ کر اپنی سطح پر لارہے ہو؟“
میں نے پوچھاکیا آپ کو کبھی عدالتوں سے انصاف ملا ہے اور اگر ملا ہے تو اس میں کتنے عشرے لگے ہیں؟ بڑا آدمی بولا”انصاف ہمارے گھر کی لونڈی ہے کوئی اور بات کرو“۔ میں نے بڑے آدمی کو مخاطب کیا اور کہاکیا کبھی آپ کو جوہڑ کا پانی پینے کا اتفاق ہوا ہے؟یہ سن کر بڑے آدمی کو ابکائی سی محسوس ہوئی چنانچہ میں نے جواب کا انتظار کیے بغیر اگلا سوال پوچھا”کیا آپ نے کبھی ملاوٹ والی مرچیں، چائے، دودھ، گھی اور دوسری اشیائے خورونوش استعمال کی ہیں؟“بڑا آدمی یہ سن کر ناراض ہوا اور بولا”ملاوٹ والی چیزیں تم جیسے لوگ استعمال کرتے ہیں اور پھر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر سسک سسک کر مر جاتے ہیں“۔ مجھے اس بڑے آدمی کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ شاید اب وہ میرے کسی اور سوال کا جواب نہیں دے گا، تاہم میں نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھا کیونکہ مجھے ایک احساس یہ بھی ہوا تھا کہ میرے سوالات سے اس کی انا کی تسکین ہورہی ہے اور اس کی بظاہر ناراضی میں مسرت کی ایک جھلک بھی شامل ہے چنانچہ میں نے پوچھا”آپ کو اپنے کسی عزیز سے ملاقات کیلئے جیل میں قدم قدم پر پیش کئے جانے والے نذرانوں کے مرحلوں سے گزرنا پڑا ہے اور اس کے باوجود گھنٹوں دھوپ میں بیٹھ کر انتظار کرنے کا تجربہ ہوا؟“ یہ سن کر بڑے آدمی نے گردن تان کر جواب دیا ”مجرم میرے اپنے لوگ ہوتے ہیں، جیلر میرے ایک اشارے پر انہیں ملاقات کیلئے میرے گھر چھوڑ جاتا ہے“۔
میں نے سوال کیا”کیا کبھی ایسا تو نہیں ہوا کہ بیمار پڑنے پر آپ علاج کرانے کی پوزیشن میں نہ ہوں؟“اس پر بڑے آدمی نے قہقہہ لگایا، شاید یہی میرے سوال کا جواب تھا۔ میں نے پوچھا” کیا آپ کی کوئی بیٹی جہیز کے انتظار میں بوڑھی ہوگئی ہے اور اس کی شادی نہیں ہوئی؟“ بڑے آدمی نے ناگوار لہجے میں ”نان سینس“ کہا۔ اس کے بعد مجھے اگلا سوال نہیں پوچھنا چاہئے تھا مگر میں نے پوچھ لیا”کیا آپ کے ننھے منے بچوں کو گھر کا خرچ چلانے کیلئےکسی ورکشاپ میں یا ہوٹل میں ”چھوٹے“ کے طور پر کام کرنا پڑا ہے؟“ اس پر بڑے آدمی نے سخت لہجے میں کہا”تمہیں ایسی بات کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے“۔
اور پھر مجھے واقعی شرم آگئی ورنہ میں نے ابھی اس سے پوچھنا تھا کہ کیا آپ کو کبھی چھ ہزار روپے ماہوار میں گھر کا خرچ چلانے کا تجربہ ہوا ہے؟ کیا کبھی آپ کے چار پانچ سال کی عمر کے کسی بچے کے ساتھ ایسا سانحہ ہوا ہے کہ وہ کسی امیر آدمی کے ہم عمر کے بچے کا ملازم ہو، اسے گود میں کھلاتا ہو، اس سے مار کھاتا ہو اور کبھی تھپڑ کھانے پر رو بھی نہ سکتا ہو کہ اس صورت میں پھر اسے اپنے ہی گھر والوں سے مار پڑتی ہو؟ اس کے سامنے اس کا ”مالک“ اور اہل خانہ عمدہ کھانے، پھل اور آئس کریم کھاتے ہوں اور وہ منہ دوسری طرف پھیر کر اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کرتا ہو؟“میں نے یہ سب باتیں اور اس کے علاوہ بہت سی باتیں اس بڑے آدمی سے پوچھنا تھیں مگر میں نے محسوس کیا کہ ماحول بہت Tense ہوگیا ہے چنانچہ میں نے گفتگو کا رخ سیاست کی طرف موڑ تے ہوئے پوچھا موجودہ حکومت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔مگر اس نے میرے سوال پر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ کون سی حکومت میں نے اسے ابھی تک کافی ناراض کرلیا تھا، چنانچہ اٹھنے سے پہلے اسے خوش کرنے کیلئے میں نے مودبانہ انداز میں کہاآپ صحیح کہتے ہیں مگر ہم ہر طرح کی صورتحال میں آپ ہی کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ آپ جاگیردار بھی ہیں، ایم این اے بھی ہیں، وزیر بھی ہیں اور گدی نشین بھی ہیں اور یوں طاقت کے سارے منبع آپ کے پاس ہیں، سائیں ! ہم نے تو دوا بھی آپ سے لینی ہے اور دعا بھی۔ یہ سن کر بڑا آدمی خوش ہوا اور اس نے مجھ سے پوچھا”تم نے کوئی اور سوال تو نہیں کرنا؟“میں نے کہا نہیں جناب! میں اب آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔ اس پر بڑے آدمی نے اپنے منشی کو بلایا اور کہا”اسے ایک تھیلا آٹے کا اور ایک تھیلا چاول کا دے کر رخصت کرو“۔ پھر مجھے مخاطب کرکے بولا”ہمارے در سے آج تک کوئی خالی ہاتھ نہیں گیا“۔
حالانکہ اس بڑے آدمی نے ایک دن سکندر اعظم کی طرح اپنے ہی در سے خالی ہاتھ جانا تھا۔
واپس کریں