عطاالحق قاسمی
میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہیں گاہے گاہے نصیحت کرتا رہوں گا اور چونکہ عمر کے آخری حصے میں ہوں لہٰذا تم میری وصیت سمجھ کر اس پر عمل کرنا۔میں نے تمہیں گزشتہ خط میں مولوی غلام رسول کے بارے میں بتایا تھا کہ نہ صرف یہ کہ اس سے محتاط رہنا بلکہ جب کبھی موقع ملے مسجد کمیٹی کے ممبران سے مل کر اسے مسجد کی امامت سے برطرف کرانے کی کوشش کرنا، اس مولوی کے خیالات ملحدانہ ہیں اور اسے بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے ،میں بہت کوشش کر چکا ہوں کہ میرے بارے میں اس شخص کے خیالات بدلیں میں روزانہ پنج وقت نماز اس کے پیچھے پڑھتا ہوں، اسے نذرنیاز دینے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور کہتا ہے تمہاری عبادات تمہاری ظاہری شکل وصورت تمہیں خدا کے قہر سے نہیں بچاسکتی کیونکہ تم دونمبر آدمی ہو اور تمہارے سارے کام دونمبر ہیں حالانکہ پیارے بیٹے ساری دنیا جانتی ہے کہ ہر کام میں میرا پہلا نمبر ہوتا ہے۔یہ بدتمیز مولوی ایک دن تبلیغ کرنے میرے دفتر تک بھی پہنچ گیا تھا میں نے اس کی بہت آئو بھگت کی میں نے اپنی میز پر ایک خوبصورت تختی پر لکھ کر لگایا ہوا تھا ۔
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا
کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
مولوی غلام رسول کی نظر اس پر پڑی تو وہ غصے میں آ گیا اور بولا تم ایسے شخص نے یہ تختی یہاں لگا کر توہین رسالتؐ کی ہے تمام تر کرپشن اور دونمبر کاموں کے باوجود اگر تمہاری بات ابھی تک بنی ہوئی ہے تو اس کی وجہ احتساب کرنے والے اداروں کی نااہلی ہے اگر تم اس دنیا میں کچھ دے دلا کر ان اداروں کی گرفت سے بچے ہوئے ہو تو تمہارے سیاہ اعمال کی پکڑ روز محشر حضور رسالت مآبﷺ خود فرمائیں گے اس پر مجھے بہت غصہ آیا مگر میں مصلحتاً خاموش رہا۔
اسی طرح جب گزشتہ برس مجھے حج بیت اللّٰہ کی سعادت حاصل ہوئی تو میں مولوی غلام رسول سے ملاقات کیلئے اس کے حجرے میں گیا وہاں ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی ایک گائو تکیہ تھا اور مولوی غلام رسول تکیے سے ٹیک لگائے تلاوت میں مشغول تھا، میں نے بہت احترام سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا معانقہ بھی کرنا چاہتا تھا لیکن مولوی غلام رسول کے ہاتھ نیچے ہی لٹکتے رہے اور یوں میں صرف ففٹی پرسنٹ معانقہ کر سکا میں نے عرض کی کہ میں حج پر جا رہا ہوں سوچا آپ سے ملتا جائوں، اس پر مولوی نے مجھے مبارکباددی اور کہا خدا کرے جب آپ واپس آئیں تو جن غریبوں کی جائیدادوں پر آپ نے قبضہ کیا ہوا ہے وہ انہیں واپس کردیں اور آپ اسی طرح کے جو باقی دونمبر کام کرتے ہیں ان سے تائب ہو جائیں ۔مجھے ایک بار پھر بہت غصہ آیا مگر پی گیا کیونکہ اہل محلہ اس مولوی کی بہت عزت کرتے ہیں چنانچہ میں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں میں اگر اتنا برا ہوتا تو مجھے بلاوا کیوں آتا، بلاوے کے بغیر کس کی مجال ہے جو وہاں جاسکے؟ اس پر مولوی غلام رسول کا پارہ چڑھ گیا اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا اس طرح کی باتیں دنیا دار مولویوں نے تم ایسے ذخیرہ اندوزوں ،غاصبوں، فراڈیوں اور منافع خوروں کو خوش کرنے کیلئے مشہور کی ہوئی ہیں تاکہ جب تم حرام کے پیسے سے حج پر جائو تو لوگ کہیں کہ جسے وہاں سے بلاوا آتا ہے وہ غلط آدمی کیسے ہوسکتا ہے ۔حضورؐ کے در سے بلاوا انہیں آتا جو ان کی سیرت پر عمل کرتے ہیں اللّٰہ اُنہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دیتا ہے جو اس کے پیارے بندے ہوتے ہیں، تم جیسے لوگوں کو وہاں سے بلاوا نہیں آتا تم جیسوں کی وہاں پیشی ہوتی ہے ۔
میرے بیٹے !تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ اس کی ان باتوں سے میرے دل پہ کیا گزری ہو گی لیکن لوگ تو اس مولوی کو ولی اللّٰہ قرار دیتے ہیں چنانچہ میں ہر ایسے موقع پر ضبط سے کام لیتا ہوں لیکن بیٹے میری وصیت ہے کہ جب بھی موقع ملے اس مولوی کو امامت سے فارغ ضرور کرانا یہ مولوی تو اللّٰہ جانے مجھے کیا سمجھتا ہے لیکن تم تو جانتے ہو غریبوں کے معاملے میں میرا دل کتنا نرم ہے مجھ سے تو کسی کا دکھ دیکھا نہیں جاتا ۔ایک دفعہ میں لان میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا ایک غریب آدمی میرے پاس آیا، اسے مالی مدد کی ضرورت تھی اس نے اپنی بپتا سنانا شروع کر دی اس کی کہانی اتنی دردناک تھی کہ میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے حتیٰ کہ میں ہچکیاں لے لے کر رونے لگا، جب اس نے اپنی بات ختم کی تو میں نے اپنے منیجر کو بلایا اور کہا کہ اس شخص کو دھکے مار کر باہر نکال دو یہ گزشتہ آدھ گھنٹے سے مجھے رلا رہا ہے۔ (جاری ہے)
واپس کریں