دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مذہبی بازی گر
عطاالحق قاسمی
عطاالحق قاسمی
مجھے اپنے بچپن میں مجمع بازوں کو سننے کا بہت شوق تھا۔ ویسے تو مجمع بازوںکیلئے جگہ کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ کہیں بھی کھڑے ہو کر بولنا شروع کردیتے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں ’’ویلے‘‘ (فارغ) لوگ جوق در جوق ان کی طرف کھنچےچلے آتے ہیں۔ ان دنوں زیادہ تر لاہور کی سرکلر روڈ ان کی آماجگاہ ہوتی تھی اور ان کے خیالات ِ عالیہ سے مستفید ہونے والوں میں ایک ’’ویلا‘‘ میں بھی ہوتا تھا۔ یہ لوگ بلاکے چرب زبان ہوتے ہیں۔ آپ ان کےپاس ویسے ہی دم لینے کیلئے رک جائیں پھر آپ دم روک کر ان کا خطاب سننے گھنٹوں کھڑے رہ سکتے ہیں۔ میں نے تو ان میں بعض ایسے خطیب بھی دیکھے ہیں جو اس پیشے کی بجائے کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت جوائن کرلیں تو ان کا شمار اس جماعت کے صف ِ اول کے قائدین میں ہو۔ ان مجمع بازوں میں ایک تو باقاعدہ ملّا صاحب تھے۔ اپنا خطاب حالات ِ حاضرہ سے شروع کرتے اس کے بعد دین سے دوری کا رونا روتے اور پھرہمارے تمام قومی مسائل کاحل اللہ سے لو لگانے میں بتاتے۔ بعدازاں وہ صحت کے مسائل بیان کرتے اور اس صحت کے بیان کامرکزی حصہ جسم کا مرکزی حصہ ہوتا۔ اس کے شروع میں وہ کہہ دیتے تھے کہ اب بچے یہاں سے چلے جائیں۔ جس میں یہ بلیغ اشارہ ہوتا تھا کہ بیان کا باقی حصہ ’’صرف بالغوں کیلئے‘‘ ہے تاکہ ان میں سے اگر کسی نے جانا بھی تھا تو وہ جانے نہ پائے۔بس اس کے بعد علامہ صاحب ہوتے تھے اور ان کاوہ بیان جس سے جسم میں برقی لہریں دوڑنے لگتیں۔ آخری مرحلہ مقوی ادویات کی فروخت کا ہوتا تھا جس کیلئے یہ سارا مجمع لگایا گیا ہوتا تھا۔ لوگ دھڑا دھڑ سستی دور کرنے کی ادویات خریدتے اور علامہ صاحب پیسے بٹور کر کہیں اور مجمع لگانے کیلئے اپنا ساز و سامان سمیٹنے لگتے!
اب فراغت کے یہ لمحات کہاں میسر ہیں۔ اب تو قومی اور بین الاقوامی مسائل نے ذہن کوگھیر ےمیںلیا ہواہے۔ چنانچہ جہاں بھی جانا ہوتا ہے وہاں یہی گفتگو ہو رہی ہوتی ہے۔ سبزی والا، گوشت والا، گھروں میں کام کاج کرنے والے سب ان امور پر اپنی ماہرانہ رائے دیتے ہیں۔ شام کو میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتا ہوں پہلے تو وہ چینل دیکھتا ہوں جہاں جانے پہچانے اور اچھی شہرت رکھنے والے صحافی اپنی رائے دے رہے ہوتے ہیں، اس سے حالات ِ حاضرہ کے بارے میں جاننے اور پھر اپنی رائےقائم کرنے کا موقع ملتاہے۔ جب اتنے خشک موضوعات پر اتنی خشک گفتگو سننے سے دماغ میں خشکی پیدا ہونے لگتی ہے تو پھر تین چینل ایسے ہیں جہاں نہایت سنجیدہ موضوعات پر نہایت مزےکی گفتگو سننے کو مل رہی ہوتی ہے۔ یہاں جو چہرے دکھائی دیتے ہیں ان کی اکثریت کو میں نے صحافت کے کسی بھی دور میں نہ دیکھاتھا اور نہ ان کے بارے میں کچھ سنا تھا۔ اس کے باوجودمیں ان کا جوش خطابت، ان کی پیش گوئیاں اور ان کی زبان سے شاید اسی وقت تیار شدہ کرپشن اور طرح طرح کے اسکینڈلز سننے میں محو ہو جاتا ہوں۔ ان میں سے اکثر مجھے سرکلر روڈ والے علامہ صاحب کے شاگردلگتے ہیں بلکہ ایک پر تو مجھے شبہ ہے کہ یہ وہی علامہ صاحب ہیں جو بالآخر اس پیشے میں آگئے ہیں۔ شرفا کی محفلوں میں بیٹھتے بیٹھتے انسان گالی گلوچ کی زبان سننے کو ترس جاتا ہے اور اللہ بھلا کرے میرے ان دوستوں کا جو انسان کی اس گندی جبلت کی تسکین کا بندوبست پورے اہتمام سے کرتے ہیں۔ میں ان کی پیش گوئیاں سنتاہوں، ان کے تجزیئے سنتا ہوں مگر صورتحال ہمیشہ اسکے برعکس نکلتی ہے اور کرپشن کی جوکہانیاں میرے یہ علامہ دوست ’’خبر‘‘ کی صورت میں دے رہے ہوتے ہیں صبح کے اخبارات میں وہ ’’خبر‘‘ کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ اللہ ان سب کو خوش رکھے جو پریشانیوں کےاس دور میں میرے اور میرے جیسے دوسرے بہت سے منفی ذہن رکھنے والوں کی منفی سوچوں کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
ویسے آپس کی بات ہےمیں ان دنوں وقت ملنے پر ایک آدھ چکر سرکلر روڈ کابھی لگا لیتا ہوں جہاں کوئی نہ کوئی مجمع باز مجمع لگاکر بیٹھاہوتاہے۔ اس چکر لگانےکامقصد یہ ہوتا ہے کہ اگران میں سے کوئی میرے ٹی وی کے متذکرہ دوستوں کےکام کا نظرآیاتو کوشش کروں گا کہ اسے اس طرح کے کسی چینل میںشامل کروا دوں۔ صبح وہ سرکلر روڈ پرمجمع لگائے اور شام کو ٹی وی چینل پر آجایاکرے۔ اللہ کرے کہ میں اپنی اس ٹیلنٹ سرچنگ میں کامیاب ہوجائوں!اور چلتے چلتے ایک اور بات، اگر آپ اپنا دین دنیا سنورتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ٹک ٹاک پر چلے جائیں، وہاں آپ کو مختلف وضع قطع کے ’’صوفیائے کرام‘‘ نظر آئیں گے۔ جو سفید داڑھیوں اور شرعی لباس کو عزیز رکھتے ہیں۔ یہ بزرگ آپ کو لڈی ڈالتے دکھائی دیں گے۔ ان کے سامنے ان کا ’’مرشد‘‘ بیٹھا ہوتا ہے جس کے ہاتھ پائوں چومے جا رہے ہوتے ہیں، مرشد بھی بیٹھے بیٹھے ہلکا پھلکا ڈانس کرتے ہیں، ان ’’صوفیا‘‘ کا معاملہ بھی مختلف ڈانس گروپس جیسا ہے ان کے لباس مختلف رنگ کے ہوتے ہیں، ٹوپیاں بھی آڑی ترچھی دکھائی دیں گی۔ یہ جس مہارت سے STEPS اٹھاتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ماشاء اللہ کسی استاد کے سدھائے ہوئے ہیں۔ ایک پیر صاحب ایسے بھی نظر آئے جن کی عمر چودہ پندرہ برس سے زیادہ نہیں،گورے چٹے، سفید اور کالی داڑھیوں والے مریدانِ باوفا آگے بڑھ بڑھ کر ان کے ہاتھوں کو بوسہ دے رہے تھے۔ ہمارے کچھ دانشور کہتے ہیں ہم نے اپنے دین کو بہت خشک بنا دیا ہے، وہ اپنا یہ وہم دور کرنے کیلئے سرکلر روڈ کے علامہ صاحب کا خطاب سن لیں یا ٹک ٹاک پر جائیں اور یہ مقدس رقص دیکھیں، اس کے بعد ان کی رائے میں مثبت تبدیلی آئے گی اور وہ کہیں گے کہ ان بازی گروں کے مقابلے میں انہیں ’’خشک اسلام‘‘ قبول ہے۔
واپس کریں