عطاالحق قاسمی
ایک امریکی انویسٹر کوئی نیا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے اس کے ذہن میں جوتوں کا کارخانہ لگانے کا منصوبہ ہے مگر مارکیٹ میں جوتوں کی بھرمار ہے چنانچہ وہ سوچتا ہے کہ اس میں کوئی اختراع ہونی چاہئے وہ جوتے کے تلوے میں ایک گھنٹی لگا دیتا ہے اور اسے BELL SHOEکا نام دیتا ہے اس کے بعد آپ جب کبھی ریڈیو آن کرتے ہیں وہاں بیل شوز، بیل شوز کی صدائیں پبلسٹی کی صورت میںسنائی دے رہی ہوتی ہیں، آپ اخبار اٹھاتے ہیں وہاں پورے صفحے پر ایک حسینہ بیل شو پہنے نظر آتی ہے۔ ٹی وی آن کرتے ہیں وہاں بھی بیل شو کی ’’رنگینیاں‘‘ دکھاتی ہیں اب ایک لڑکی جس کے پاس پہلے ہی جوتوں کے دو چار جوڑے موجود ہیں ابتداءمیں اپنی خواہش پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے مگر پھر ہر طرف بیل شو کی دھومیں دیکھ کر وہ اپنی خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے اور جمعہ کی شام کو کریڈٹ کارڈ پر بیل شو خرید لاتی ہے مگر یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا اس کے بعد کوئی اور سرمایہ کار کسی نئی انڈسٹری میں سرمایہ لگاتا ہے اور اپنی پروڈکٹ کے ساتھ کوئی دم چھلا لگا کر مارکیٹ میں لے آتا ہے اور ایک بار پھر ریڈیو ٹی وی ،اخبارات میں صارفین کی خواہش بیدار کرنے کی مہم شروع کر دی جاتی ہے ۔جوتا خریدنے والی لڑکی ایک دن پھر اپنی خواہش کی تکمیل بذریعہ کریڈٹ کارڈ کرتی ہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے کریڈٹ کارڈ کا بل ماہ بہ ماہ بڑھتا چلا جاتا ہے چنانچہ وہ اپنے ان اخراجات کی تکمیل کیلئے اپنے کام کے اوقات بڑھا دیتی ہے پہلے آٹھ گھنٹے پھر نو گھنٹے پھر دس گھنٹے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ رات کو تھکی ماندی گھر لوٹتی ہے اور صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی آن کر دیتی ہے اور اکثر اوقات صوفے ہی پر سو جاتی ہے اگلی صبح وہ کافی کاکپ ہاتھ میں تھامے کار ڈرائیو کرتے ہوئے انسانوں کے بوچڑخانے میں پہنچ جاتی ہے اور کارخانے کی مشینوں میں ایک اور انسانی مشین کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔
مغربی ممالک کا سرمایہ دار آپ کو روٹی، کپڑے پر ملازم رکھتا ہے دو وقت کا کھانا، لباس اور ہفتے میں ایک دن کلب میں ڈانس کی سہولت !یہ میں وہاں کے ایک عام آدمی کی بات کر رہا ہوں جو وہاں کی آبادی کا غالب حصہ ہیں وہ جو چیز بھی استعمال کر رہے ہوتے ہیں وہ سب سرمایہ دار کی ملکیت ہوتی ہے جن کی یہ قسطیں اتارتے رہتے ہیں وہاں چونکہ فیملی سسٹم دن بدن ٹوٹ رہا ہے چنانچہ ایک دن یہ عوام قسطیں اتارتے زمین اوڑھ کر سو جاتے ہیں ان کے یار دوست یا دور پار کے رشتہ دار ان کے آخری سفر میں ان کی آخری آرام گاہ تک جاتے ہیں اور پھر ایک دن یہ دوست احباب اور رشتہ دار بھی سپردخاک ہو جاتے ہیں جہاں ان کےساتھ لاکھوں حسرتیں بھی دفن ہوتی ہیں ۔
تاہم وہاں کی مڈل کلاس اور اپر کلاس ایک ایسے نظام میں زندہ رہ رہی ہوتی ہے جس کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ہوتی ہے مگر ایک اداسی اورتنہائی ان کا بھی پیچھا کرتی رہتی ہے ہمارے پاکستانی جو متذکرہ ممالک میں آباد ہیں وہ ایک فیملی سسٹم کےتحت زندگی بسر کرتے ہیں مگر ساری فیملی کام کر رہی ہوتی ہے اور ان کا ایک دوسرے سے رابطہ دن بدن کم سے کم تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ان کی بظاہر نظر آنے والی خوشحالی کا پیچھا غم و اندوہ کی کئی کہانیاں بھی کر رہی ہوتی ہیں یہ کہانیاں وہ آپکے سامنے کم کم بیان کریں گے مگر جب آپس میں بیٹھتے ہیںتو انکےسارے دکھ انکی زبانوں پر آجاتے ہیں اور ہم پاکستان میں رہنے والے بھی اب اپنی خواہشات کے پیچھے اپنی اصلی خوشیاں سرمایہ داروں کے پاس رہن رکھنا شروع ہو گئے ہیں۔فیشن انڈسٹری نے تو ہم سب کو بھی اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اسکے علاوہ عالیشان گھر فارم ہائوسز ،جیولری اور مڈل کلاس کا نت نئے موبائل فون اس طرح کی بہت سی ایسی چیزوں کے حصول کیلئے بھی جنکے بغیر بھی زندگی باآسانی گزر سکتی ہے۔ بے چین رہنا الگ کہانی ہےتاہم غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگ آج بھی انصاف کیلئےآسمان کی طرف تکتے ہیں کہ شاید کبھی افلاک سے انکے ناموں کا جواب آ ہی جائے ۔
واپس کریں