عطاالحق قاسمی
میں نے بکروں کی خریداری کیلئے ارشد کو ساتھ لیا اور وحدت روڈ پر آ گیا، اس کی ساری عمر بکروں کے درمیان گزری ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ اس کا حلیہ اور وضع قطع بھی بکروں جیسی ہو گئی ہے بلکہ اس کے پاس بیٹھیں تو اس کے جسم حتیٰ کہ خیالات سے بھی بکروں کی بو آتی ہے جس کی وجہ سے دوستوں کے حلقے میں وہ ارشد بکرا کے نام سے مشہور ہو گیا ۔بکروں کی صحبت میں ایک طویل عرصے تک رہنے کی وجہ سے وہ ان کی زبان بھی سمجھنے لگا ہے بلکہ ان کی زبان اتنی روانی سے بولتا ہے کہ انسانوں کی زبان میں بات کرنا بھول گیا ہے چنانچہ اگر اسے کبھی کسی انسان سے یا کسی انسان کو اس سے بات کرنا پڑے تو دونوں کو تفہیم میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔
تاہم بڑی عید کے دنوں میں دوستوں کے حلقے میں اس کی بہت آئو بھگت ہوتی ہے کیونکہ بکروں کی خریداری میں اس کی بکروں میں مقبولیت بہت کام آتی ہے۔ وحدت روڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بکرے قطار اندر قطار کھڑے تھے اور ان کے مالک گاہکوں سے بھائو تائو میں مشغول تھے مختلف کونوں سے کھیرا ہے، آنڈو ہے، دانت ٹوٹا ہوا ہے وغیرہ کی آوازیں آ رہی تھیں جس کا مقصد بکرے کی قیمت کم کرانا تھا اور ظاہر ہے یہ آوازیں گاہکوں کی تھیں ارشد کو دیکھتے ہی کئی بکرے بڑی گرمجوشی سے اس کی طرف لپکے اور اس سے معانقہ کرنے کی کوشش کی مگر ارشد نے انہیں ان کی زبان میں کچھ کہا جس پر انہوں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا غالباً یہی کہا ہو گا کہ میں اس وقت انسانوں کے ساتھ ہوں میری عزت کا معاملہ ہے لہٰذا یہ بے تکلفی چنداں مناسب نہیں، ایک بکرا جو معانقے میں کامیاب ہو گیا تھا بہت بری سی شکل بنائے کھڑا تھا غالباً ارشد بکرے کی بو نے اسے نڈھال کر دیا تھا ۔
میں نے ارشد سے کہا مجھے ہمیشہ سے یہ تجسس رہا ہے کہ جانور آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں ۔آج تم میرا یہ تجسس دور کردو چنانچہ اس نے مجھے جو کچھ بتایا اس کے مطابق ایک بکرا دوسرے بکرے سے کہہ رہا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ موجودہ معیشت دانوں کی عمر دراز کرے یہ ہم بکروں کے محسن ہیں، پرسوں عید ہے مگر مہنگائی نے لوگوں کے کس بل نکال دیئے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اس دفعہ ہمیں صرف ٹٹولنے کا شوق پورا کر رہے ہیں ۔قیمتیں سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور منہ لٹکا کر آگے کو چل پڑتے ہیں ۔اس پر دوسرے بکرے نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو مگر تم نے نوٹ نہیں کیا یہ انسان لوگ اپنی غربت چھپانے کیلئے جاتے وقت ہمارے بارے میں کیسی بری بری باتیں کرتے ہیں، صبح ایک گاہک آیا وہ خود سنگل پسلی کا تھا جب اس نے میری قیمت سنی تو کہنے لگا اس بٹیرے کے اتنے پیسے؟میرا جی چاہا کہ اس کے پیٹ میں ٹڈھ ماروں تاکہ اسے پتہ چلے کہ بٹیرے اور بکرے میں کیا فرق ہوتا ہے ؟ان بکروں کے پاس ہی ان کی ماں بھی بیٹھی تھی اس نے ان کی گفتگو سنی تو بولی میں تمہاری کہاں تک خیر منائوں گی تم پاکستانی مسلمان کو نہیں جانتے، وہ اگر نہیں خریدے گا تو محلے میں اس کی ٹکے کی عزت نہیں رہے گی۔اس نے کل کو اپنی بیٹی کی شادی بھی کرنی ہے اس کی بیٹی کیلئے کون رشتہ لیکر آئے گا جو عید کے روز بھی ہمسائے کے گھر سے گوشت کے آنے کے انتظار میں بیٹھا ہو؟ یہ سن کر بکرے اداس ہو گئے ان میں سے ایک نے ارشدبکرا شناس کو مخاطب کیا اور کہا ’’تم انسان اتنے خود غرض کیوں ہو کہ محض اپنی آن کیلئے ہماری جان کے درپے ہو جاتے ہو‘‘اس نے جواب دیا ’’یہ بات مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو، کسی انسان سے پوچھو‘‘ مگر پھر اسے اچانک خیال آیا کہ وہ بھی لوگوں کی باتوں میں آکر اپنے بکرے ہونے کا اقرار کر گیا ہے چنانچہ اس نے فوراً کہا میرا مطلب ہے کہ میں تو تمہارا دوست ہوں میں اس کا کیا جواب دے سکتا ہوں البتہ جو شخص میرے ساتھ تمہیں خریدنے آیا ہے وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں سہمے ہوئے بکرے اگر اپنے دلوں کو خوف سےآزاد کرلیں تو کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا یہ ہر آنے والے کےسامنے گردن جھکا دیتے ہیں اور جھکی ہوئی گردن پر چھری نہ پھیری جائے تو کیا کیا جائے؟
ان میں سے ایک بکرا کچھ سر پھرا لگتا تھا اس نے گردن اوپر اٹھائی اور ارشد کو مخاطب کرتے کہا ’’تمہارا دوست ٹھیک کہتا ہے مگر تم نے اس معاملے میں اپنی رائے نہیں بتائی ؟ارشد نے کہا ’’میں اپنے اس دوست سے متفق نہیں ہوں نہتے بکرے چھریوں والوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ‘‘اس پر دوسرے بکرے نے ارشد کی طرف دیکھا اور کہا ’’تم ٹھیک کہتے ہو میں تمہارا ہم خیال ہوں‘‘
مجھے یہ صلح جو بکرا پسند آیا میں نے بیوپاری کو اس کی قیمت ادا کی اور گھر لے آیا اس کی گردن میں خوبصورت گانی ڈالی اور پائوں میں پازیبیں باندھیں اسےعالی شان لنچ کرایا ،داتا صاحب سلام کیلئے لے کرگیا اور پھر قصائی کو فون کیا کہ وہ صبح آٹھ بجے بکرا ذبح کرنے میرے گھر پہنچ جائے!
واپس کریں