دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مشہور لوگوں کا المیہ!
عطاالحق قاسمی
عطاالحق قاسمی
ہر انسان کے ساتھ زندگی میں چھوٹے موٹے ہاتھ ہوتے رہتے ہیں چنانچہ میرے ساتھ بھی ایسے ہوتا ہے تاہم خوش قسمت ہوں کہ انکے پیچھے بدنیتی نہیں معصومیت کارفرما نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے ایک تازہ ترین کارروائی نے مجھے خاصا لطف دیا ہے، کچھ دیر پہلے میرے موبائل کی گھنٹی بجی دوسری طرف کوئی مہذب لہجے کے حامل انسان تھے۔ انہوں نے بہت ادب سے پوچھا کیا آپ عطاالحق قاسمی ہیں ؟میں نے کہا جی میں ہی عطاالحق قاسمی ہوں ان کا دوسرا سوال تھا کیا آپ سی ڈی اے (کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ) میں کام کرتے ہیں اس پر میری ہنسی چھوٹ گئی میں نے اسی طرح ہنستے ہوئے کہا ’’نہیں‘‘ اور یہ سنتے ہی ان صاحب نے فون بند کر دیا اس ایکٹویٹی کا لطف میرے علاوہ وہ سب خواتین و حضرات بھی اٹھا سکتے ہیں جو بزعم خویش اپنا شمار بہت مشہور شخصیات میں کرتے ہیں۔ ایک واقعہ اس سے بھی زیادہ سنگین نوعیت کا ہے، مجھے ایک دفعہ اپنے ادبی جریدے معاصر انٹرنیشنل کیلئے ایک معاون کی ضرورت تھی ۔انٹرویو کے دوران ایک امیدوار نے کہا مجھے ملازمت ملنے کی اتنی خوشی نہیں ہو گی جتنی اس خیال سے کہ مجھے عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا۔اسی طرح ایک بار میں نے دلدار پرویز بھٹی مرحوم کے گھر فون کیا دلدار اس وقت گھر پر نہیں تھاچنانچہ فون اس کے ایک مجہول سے ملازم نے اٹھایا میں نے اسے کہا کہ دلدار صاحب آئیں تو انہیں بتانا کہ عطاالحق قاسمی نےفون کیا تھا وہ بولا جی یہ کہہ دوں گا مگر مجھے یقین تھا کہ یہ بغلول میرا صحیح نام نہیں بتا سکے گا، اچھے خاصے لوگوں کیلئے اس مشکل مرحلے سے گزرنا دشوار ہو جاتا ہے چنانچہ میںنے پوچھا دلدار صاحب کو کیا بتائو گے کس کا فون آیا تھا اس نے کمال اعتماد سے جواب دیا میں انہیں بتائوں گا کہ غزالہ قاسمی نے فون کیا تھا مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ’’عطا الحق‘‘ کو ’’غزالہ‘‘ کیسے سمجھا جاسکتا ہے۔
اسی طرح کی ایک ایکٹویٹی میرے اور امجد اسلام امجد کے ساتھ بھی ہوئی تھی ہمیں ٹیکسلا یونیورسٹی کے ایک مشاعرے میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر طلبہ کی ایک بڑی تعداد استقبال کیلئے موجود تھی وہ ہمیں گاڑیوں میں اسکاڈکرتے ہوئے ٹیکسلا یونیورسٹی کی طرف گامزن ہوگئے جب ہم یونیورسٹی کے مین گیٹ پر پہنچے تو وہاں ایک بہت بڑا بینر آویزاں تھا جس پر میرا اور امجد کا نام بہت جلی حروف میں لکھا تھا اور ہمیں خوش آمدید کہا گیا تھا ان دو مرکزی ناموں کے علاوہ نیچے کی سطروں میں باقی شعرا کے نام باریک باریک لکھے ہوئے تھے میں نے پڑھنے کی کوشش کی تو ایک نام سید ضمیر جعفری کا پڑھنے میں کامیاب ہوسکا اس پر میرا ماتھا ٹھنکا اور اندازہ ہوا کہ تقریب کے منتظمین کو حفظ مراتب کا کچھ پتہ نہیں چنانچہ جب مشاعرے کا آغاز ہوا تو امجد نے سٹیج سیکرٹری کو بلایا او رکہا ’’ایک بات دھیان میںرکھیں اور وہ یہ کہ سید ضمیر جعفری ہمارے سینئر اور عہد حاضر کے بہت بڑے شاعر ہیں چنانچہ ہم دونوں کو ان سے پہلے پڑھائیں ان کی باری سب سے آخر میں آئے گی اس پر سٹیج سیکرٹری نے ادب سے ایک ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے ہوئے کورنش بجا لانے کے انداز میں کہا سر ایسے ہی ہو گا پھر اس نے ایک نظر امجد اسلام پر ڈالی اور مودب لہجے میں پوچھا سر آپ کا اسم شریف ؟
کچھ اسی طرح ایک واردات ہم لوگوں کے ساتھ ممبئی میں بھی ہوئی تھی لیکن یہ معصومیت یا بے خبری کا نہیں بلکہ اس خوبصورت انتقام کا شاخسانہ تھی جو سٹیج سیکرٹری نے ہم سے لیا۔ یہ سٹیج سیکرٹری بہت مضحکہ خیز قسم کی انائونسمنٹ کر رہے تھے مثلاً حضرات سٹیج پر شعرا میں پانوں کی تقسیم شروع ہو رہی ہے۔ حضرت احمد ندیم قاسمی کو پان پیش کیا جا رہا ہے اب پان کی گلوری گردش کرتی ہوئی حضرت قتیل شفائی تک پہنچی ہے اب پان کی شمع حضرت احمد فراز کے سامنے رکھ دی گئی ہے وغیرہ وغیرہ ان دنوں شبنم شکیل کے شوہر شکیل احمد بلوچستان میں سیکرٹری خزانہ تھے ہم نے یہ صورتحال دیکھی تو انہیں کہا کہ یہ صاحب مشاعرہ خراب کریں گےلہٰذا جب مہمان شعرا کی باری آئے تو نظامت کے فرائض کسی اور کے سپرد کر دیں۔سٹیج سیکرٹری تک جب یہ خبر پہنچی کہ مہمان شعرا کی باری آنے پر نظامت کوئی اورصاحب کریں گے تو انہوں نے مہمان شعرا سے اس کا جو انتقام لیا اس کی ہم سب نے داد دی۔انہوں نے آخری مقامی شاعر کی انائونسمنٹ کرتے ہوئے کہا اب پاکستان بھر سے آئے ہوئے مہمان شعرا اپنا کلام سنائیں گے تاہم میری نظامت کا دور یہاں ختم ہوتا ہے کیونکہ میں ان شعرا سے واقف نہیں ہوں اس کے بعد وہ ندیم، فراز او رقتیل پر زہر آلود نظر ڈالتے ہوئے سٹیج سے اتر گئے حالانکہ ان کی اس نظر کرم کے اصل حقدار میں اور امجد تھے۔
اس سے ملتا جلتا ہاتھ عمران خان کے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے میرا دوست مسعود علی خان جب بیرون ملک مقیم تھا مختلف مواقع پر اسکی ملاقات عمران خان سے ہوئی تھی اور وہ تقریباًہر ملاقات میں ان سے پوچھتا تھا کہ تم کرتے کیا ہو اس نے دو ایک بار کرکٹ کے حوالے سے اپنی شہرت کے بارے میں بتایا ہوگا لیکن مسعود کی بلا جانے کہ کرکٹ کیا ہوتی ہے اسے اس کھیل اور اس کے نامور لوگوں سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ میرا معاملہ بھی ایسا ہی ہے میرے مرحوم بھانجے مبین پیر زادہ نے ایک بار میری ملاقات ہاکی کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں سے کرائی میں انہیں ایک پرجوش مداح کے طور پر ملا لیکن حرام ہے اگر مجھےپتہ ہوکہ یہ لوگ کون ہیں۔ کالم کے آخر میں ایک دلچسپ واقعہ حضرت احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے بھی بیان کرنے کے قابل ہے ۔ندیم صاحب یہ واقعہ اکثر دوستوں کو سنایا کرتے تھے کہ ایک بار ایک قصبہ میں وہ کسی عزیز کی شادی پر مدعو تھے اتنے میں ایک باراتی نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کیا اور ندیم صاحب کی طرف اشارہ کرکے پوچھا انہیں جانتے ہو؟انہوں نے نفی میں سرہلایا تو اس نے ان بےخبروں پر لعنت ملامت کرتے ہوئے کہا ’’ تم لوگوں کو ادب سے کوئی لگائو ہو تو تمہیں علم ہو یہ کون ہیں ارے بدنصیبو !یہ عطاالحق قاسمی صاحب ہیں‘‘۔
واپس کریں