دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شیطان سے ایک بھرپور ملاقات
عطاالحق قاسمی
عطاالحق قاسمی
الحمد للہ میری زندگی میں بہت سے رمضان گزرے ہیں اور ان کی برکتوں سے مستفید ہوتا رہا ہوں لیکن ایک رمضان ایسا ہے جو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ہوا یوں کہ چند برس پیشتر رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی مجھے ایک شیطان کا ایس ایم ایس موصول ہوا، میں نے اسے جواب میں لعن طعن کی اور کہا ”بد بخت تو تو رمضان میں قید ہو جاتا ہے تو پھر یہ اچانک کہاں سے ٹپک پڑا؟“ جواب آیا شیطان قید ہوتا ہے، اس کے چیلے چانٹے تو قید نہیں ہوتے اور میں شیطان کا ایک ادنیٰ سا چیلا ہوں۔ میں نے پوچھا ”تم نے مجھے ایس ایم ایس کیوں کیا؟“ جواب ملا ”ایک تو رمضان کی مبارک دینے کے لئے اور دوسرا یہ پوچھنے کے لئے کہ تمہارا روزہ ہے؟“ میں نے کہا ”الحمد للہ روزے سے ہوں!“ بولا، میرا بھی روزہ ہے مگر لگ بہت رہا ہے۔ میں نے کہا شیطان لعین کے چیلے، تو نے روزہ کیسے رکھ لیا؟ جواب آیا، مسلمانوں کے گھر پیدا ہوا ہوں، بس عادت سی ہے۔ تب میں نے جانا کہ یہ کوئی آتشیں مخلوق نہیں ہے بلکہ یہ ہماری ہی طرح کا ایک عام انسان ہے۔ بس اس نے شیطان کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے، سو میں نے پوچھا، کیا تم سے دوبدو ملاقات ہو سکتی ہے؟ جواب آیا کیوں نہیں ۔ کل تمہارے دفتر حاضر ہو جاؤں گا۔ اگلے روز وہ میرے دفتر میں بیٹھا تھا، اس کے ساتھ شیاطین کا ایک پورا جلوس تھا۔ شیطان کے جس چیلے سے میری بات ہوئی تھی اس کی داڑھی مونچھ منڈی ہوئی تھی اور اس نے برانڈڈ سوٹ پہنا ہوا تھا، وہ بہت خوبصورت شخص تھا ا ور اس کا چہرہ پُر نور لگ رہا تھا۔ دیگر افراد میں سے کچھ نے کلف لگے کرتے اور شلواریں پہنی ہوئی تھیں اور سروں پر ٹوپیاں تھیں اور کچھ قمیص پتلون میں ملبوس تھے۔ ان میں سے ایک شخص شرعی وضع قطع کا حامل تھا۔ شیطان نے تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اس کی جعلی ادویات کی فیکٹری ہے۔ دوسرے افراد بھی طرح طرح کی معاشرتی برائیوں میں مبتلا تھے ان سب نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ مولانا کے بارے میں شیطان کے چیلے نے کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھے الگ لے جا کر کہا تھا کہ اسےپتہ نہ چلے کہ ہم لوگ شیطان کے چیلے ہیں کیونکہ اس کے بعد انہیں وہ چھوٹ دینے میں مشکل پیش آئے گی جو وہ ہمارے شیطانی کاموں کے ضمن میں ہمیں دیتے ہیں۔ تاہم میں نے انہیں یہ ضرور کہا کہ حضرت، یہ سب لوگ جو آپ کے ساتھ آئے ہیں ان سب نے مل کر مسلمانوںکی زندگیاں اجیرن کی ہوئی ہیں، آپ کا ان کے ساتھ آنا مجھے بہت عجیب سا لگا ہے۔ مولانا نے یہ سن کر تبسم فرمایا اور کہا، میں یہ سب کچھ جانتا ہوں لیکن یہ آپ نے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کیا ہے۔ آپ کو شاید یہ علم نہیں کہ یہ سب لوگ ماہِ رمضان المبارک میں پورے روزے رکھتے ہیں، پانچوں وقت نماز اور تراویح پڑھتے ہیں، صدقات، خیرات، زکوۃٰ ادا کرتے ہیں۔ باقی ان میں جو چھوٹی موٹی کوتاہیاں ہیں اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کے صدقے میں ان سے درگزر کرے گا۔ میں نے عرض کی حضرت یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ انسانوں کے حقوق پامال کرنے والوں کی عبادت ان کے منہ پہ ماری جائے گی۔ بولے۔ ہاں یہ تو ہے لیکن یہ لوگ ہیں تو مسلمان، کافر تو نہیں ہیں اور مومن پر دوزخ کی آگ حرام ہے۔ میں نے عرض کی، میں آپ سے متفق ہوں لیکن اس صورت میں ان پر آتش دوزخ حرام ہو سکتی ہے اگر یہ سچے دل سے توبہ کے بعد جن کے ساتھ انہوں نے دھوکا کیا ہے ان سب کے نقصانات کی تلافی کریں اور آئندہ کے لئے ان دھندوں سے باز آ جائیں تو اللہ ان کی ماضی کی خطائیں معاف کر سکتا ہے۔ مولانا نے فرمایا،ہاں یہ بات تو صحیح ہے، ایک آدھ دفعہ میں نے یہ بات بتائی تھی لیکن میں زیادہ وقت صرف عبادات کے نتیجے میں ملنے والی جنت کی بشارتیں ہی انہیں سناتا رہا ہوں کہ شاید عبادات کے نتیجے ہی میں یہ اچھے مسلمان بن جائیں!
شیطان لعین کا چیلا اس ساری گفتگو کے دوران خاموش رہا تھا لیکن گفتگو کے اس موڑ پر وہ خاموش نہ رہ سکا، اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ”تم اخبار میں کالم لکھتے ہو! کیا سچ لکھتے ہو؟“ میں نے عرض کی کوشش تو کرتا ہوں۔ بولا، میں تمہاری کرتوتوں سے واقف ہوں، تم ڈھیر سارے جھوٹ میں ذرا سے سچ کی ملاوٹ کر دیتے ہو اور یہ دس فیصد سچ سو فیصد جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔ تم بہترین لوگوں کو بدترین اور بدترین لوگو ں کو بہترین ثابت کرنے میں لگے رہتے ہو۔ تم پاکستان کے بھولے بھالے عوام کو اپنے سحر انگیز قلم سے اسی عذاب میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتے ہو، بہروپ تو ہم نے بھی دھارا ہوا ہے لیکن تم ہم سے بڑے بہروپیئے ہو کیونکہ لوگ ایک نہ ایک دن ہماری کرتوتوں سے واقف ہو جاتے ہیں جبکہ تمہارے پاس ایسا ہنر ہے جس کے ذریعے تم انہیں ساری عمر بے وقوف بنا سکتے ہو۔ ہم شیاطین کی مجلس شوریٰ میں امیر کی کمی تھی، ہم تمہیں اپنا امیر مانتے ہیں اور تمہارے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔اگلے رمضان کے پروگرام کے لئے یکم تاریخ کو مجلس شوریٰ کا اجلاس ہے جس کی صدارت آپ نے کرنی ہے۔
یہ سن کر میری برداشت کی تمام حدیں ختم ہوگئیں، میری زبان سے بے ساختہ ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ نکلا اور میں نے انہیں کمرے سے نکل جانے کے لئے کہنے کی خاطر ان کی طرف دیکھا تو وہ لاحول سنتے ہی غائب ہوگئے تھے۔
مریم نواز صاحبہ کی توجہ کے لئے۔
واپس کریں