محمد ریاض ایڈووکیٹ
گذشتہ دنوں پاکستانی مسلح افواج کے تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی جسکے مطابق: سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے، ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری، پاک فوج نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ریٹائرڈ) کے خلاف کیے گئے ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستی کا پتہ لگانے کے لیے کی تھی۔ نتیجتاً، پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ریٹائرڈ) کے خلاف مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ر) کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ تادم تحریر یقینی طور پر یہ خبر پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا کی خبروں، تجزیوں و تبصروں کی مرکز بنی ہوئی ہے اور پاک فوج کی جانب سے آرمی چیف کے بعد سب سے بڑے رینک کے آفیسر کے خلاف کی جانے والی تادیبی کاروائی کے مستقبل میں نہ صرف پاک افواج کے اندرونی نظم اور کنٹرول بلکہ سیاسی، سماجی، آئینی، قانونی اور پارلیمانی حلقوں میں بھی دُور رس نتائج مرتب ہونگے۔ اس وقت تقریبا ہر پاکستانی کی زبان سے کورٹ مارشل کے الفاظ سننے کو مل رہے ہیں۔
کورٹ مارشل سے مراد کیا ہے؟ کورٹ مارشل کی کتنی اقسام ہیں؟ کورٹ مارشل کے اختیارات اور حدود کیا ہیں؟ ان تمام سوالوں کی کھوج میں پاکستان آرمی ایکٹ، 1952 کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ کورٹ مارشل کے حوالہ سے پاکستان آرمی ایکٹ، 1952 کا باب نمبر 9 "کورٹ مارشل" کے نام سے موجود ہے جس میں درج بالا تمام سوالات کے جوابات مفصل انداز میں موجود ہیں۔ آرمی ایکٹ کے سیکشن80 کے مطابق کورٹس مارشل کی چار اقسام ہیں۔ جن میں جنرل کورٹس مارشل، ڈسٹرکٹ کورٹس مارشل، فیلڈ جنرل کورٹس مارشل اور سمری کورٹس مارشل۔
سیکشن 81 کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے جنرل کورٹ مارشل قائم کی جاسکتی ہے یا چیف آف آرمی سٹاف کے وارنٹ کے ذریعے بااختیار افسر کے ذریعے قائم کی جاسکتی ہے۔ اس کورٹ کی تشکیل کی بات کی جائے تو جنرل کورٹ مارشل کم از کم پانچ افسران پر مشتمل ہو گا، جس میں چار ممبران کیپٹن کے عہدے سے کم درجہ کے نہ ہونگے۔ سیکشن 82 کے مطابق ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل ایک اتھارٹی کی طرف سے قائم کی جاسکتی ہے، جو جنرل کورٹ مارشل کو بلانے کا اختیار رکھتا ہو یا کسی ایسے افسر کے ذریعے جو اس کے لیے کسی بھی اتھارٹی کے وارنٹ کے ذریعے بااختیار ہو۔ اس کورٹ کی تشکیل کی بات کی جائے توایک ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل کم از کم تین افسران پر مشتمل ہو گا جن میں سے ہر ایک نے کم از کم دو سال کی مسلسل مدت کے لیے کمیشن افیسر کے طور پر خدمات سرانجام دی ہوں۔
سیکشن 84 کے مطابق درج ذیل حکام کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل قائم کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جیسا کہ: ایک افسر جو اس سلسلے میں وفاقی حکومت یا چیف آف آرمی اسٹاف کے حکم سے بااختیار ہو یا حاضر سروس ایک افسر جو پاک فوج کے ایک حصے کی کمانڈ کر رہا ہو، بریگیڈیئر کے عہدے سے نیچے نہ ہو۔ اسکی تشکیل کی بات کی جائے تو ایک فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کم از کم تین افسران پر مشتمل ہوگا۔ سیکشن 88 کے مطابق: ایک سمری کورٹ مارشل کسی بھی کور آف یونٹ یا اس کے کسی بھی دستے کے کمانڈنگ آفیسر کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ اور ہر سمری کورٹ مارشل میں، مقدمے کی سماعت کرنے والا افسر اکیلے عدالت کی تشکیل کرے گا، لیکن کارروائی میں دو افسران، یا دو جونیئر کمیشنڈ افسران، یا ایک افسر اور ایک جونیئر کمیشنڈ افسر شرکت کریں گے۔اور یہ کہ ملزم جو مسلمان ہواور اسکو سزا صرف اسلامی قوانین کے تحت دی جاسکتی ہوں تو مقدمہ کا ٹرائل کرنے والا افسر اور شریک افسران اور جونیئر کمیشنڈ افسران، سبھی مسلمان ہوں گے۔
جہاں کمانڈنگ آفیسر ایک غیر مسلم ہو تو فارمیشن کمانڈر مقدمے کی سماعت کے لیے اک مسلمان افسر کو مقرر کرے گا۔ سیکشن 97کے تحت جنرل کورٹ مارشل یا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اس ایکٹ کے تابع کسی بھی شخص کو قابل سزا جرم کے لئے ٹرائل کرے اور ایکٹ کے ذریعے مجاز کسی بھی سزا کو منظور کرے اور سیکشن 98کے مطابق کسی بھی ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ آرمی ایکٹ کے تابع کسی بھی شخص سوائے آفیسر، جونئیر کمشنڈ آفیسرکے قابل سزا جرم کے لئے ٹرائل کرے اور ایکٹ کے تابع موت کی سزا یا ہاتھ پاوں کاٹنے کی سزا یا دو سال سے زائد کی سزا یا چالیس سے زائد کوڑے مارنے کی سزا کے علاوہ ہر طرح کی سزا کی منظوری دے۔
سیکشن 100کے تابع سمری کورٹ مارشل کسی بھی شخص ماسوائے آفیسر، جونئیر کمشنڈ آفیسر یا وارنٹ آفیسر کا آرمی ایکٹ کے تابع قابل سزا جرم کے لئے ٹرائل کر سکتا ہے اور ایکٹ کے تابع موت کی سزا یا ہاتھ پاوں کاٹنے کی سزا یاایک سال سے زائد کی سزا یا بیس سے زائد کوڑے مارنے کی سزا کے علاوہ ہر طرح کی سزا کی منظوری دے۔ سیکشن 105کے مطابق درج بالا کورٹ مارشل عدالتوں کا ہر فیصلہ ججوں کی اکثریتی رائے سے منظور کیا جائے گا اور جہاں سزا دینے یا نہ دینے کے متعلق ججوں کی رائے برابر ہوجائے تو فیصلہ ملزم کے حق میں دیا جائے گا۔
واپس کریں