محمد ریاض ایڈووکیٹ
آبادی کے لحاظ سے بھارت، چائنا، امریکہ، اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے جبکہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا 34 واں بڑا ملک ہے۔ اس وقت پاکستان کی آبادی چوبیس کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ جبکہ رقبہ سات لاکھ چھیانوے ہزار پچانوے مربع کلومیٹر ہے۔آبادی اور رقبے کے حساب سے فی مربع کلومیٹر تقریبا 308افراد قیام پذیر ہیں۔اس حساب سے پاکستان کا شمار دنیا کے گنجان آباد علاقے کے طور پرکیا جاسکتا ہے۔ آئیے اک نظر پاکستانی آبادی بڑھنے کے رجحان پر دوڑائیں۔
پچاس کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کی کُل آبادی تین کروڑ چھیئتر لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ سن ساٹھ میں آبادی بڑھ کر چار کروڑ انسٹھ لاکھ افراد۔ سن ستر میں پانچ کروڑ بانوے لاکھ افراد۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باوجود سن اسی میں آبادی آٹھ کروڑ چھ لاکھ افراد۔سن نوے میں آبادی بڑھ کر گیارہ کروڑ چون لاکھ افراد، سال دو ہزار میں آبادی پندرہ کروڑ تینتالیس لاکھ نفوس، سال 2010 میں آبادی انیس کروڑ چوالیس لاکھ افراد، سال 2020میں بائیس کروڑ اکتہر ہزار افراد اور بالآخر سال 2024 میں پاکستان کی آبادی چوبیس کروڑ باون لاکھ افراد پر مشتمل ہوچکی ہے۔ یاد رہے ریاست پاکستان کے قیام کے وقت پاکستان کا کل رقبہ تقریبا نو لاکھ مربع کلومیٹر تھا جبکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد موجودہ پاکستان کا رقبہ سات لاکھ چھیانوے ہزار پچانوے مربع کلومیٹر ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی جانب سے کی گئی ایک کثیر جہتی غربت انڈیکس کی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان میں غربت کی شرح 38.6 فیصد سے بڑھ کر 39.5 فیصد ہو گئی ہے۔کثیر جہتی غربت انڈیکس تین جہتوں پر مشتمل تھا: جس میں تعلیم، صحت، اور معیار زندگی کو پرکھنے کے لئے مجموعی طور پر 15 اشاروں شامل تھے۔ تین اشارے: تعلیمی جہت کے تحت ہیں جیسا کہ اسکول کی تعلیم، بچوں کی اسکول میں حاضری اور اسکول کا معیار۔ چار اشارے۔ صحت کے متعلق ہیں جیسا کہ صحت کی سہولیات تک رسائی، حفاظتی ٹیکوں، پیدائش سے بچاؤ کی دیکھ بھال اور معاون ترسیل جبکہ آٹھ اشارے معیار زندگی کے متعلق جس میں پانی، صفائی، چار دیواری، زیادہ بھیڑ، بجلی، کھانا پکانے کا ایندھن، اثاثے اور زمین اور مویشی۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں، کثیر جہتی غربت بلوچستان میں سب سے زیادہ ہے جہاں تقریباً 70 فیصد آبادی کثیر جہتی طور پر غریب ہے، اس کے بعد کے پی کے 48 فیصد اور سندھ میں 45 فیصد ہے۔
پنجاب میں ملک میں کثیر جہتی غربت سب سے کم رپورٹ ہوئی ہے جہاں اس کی 30 فیصد آبادی کی شناخت غریب کے طور پر کی گئی ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے دنیا بھر کے ممالک کی آبادی کے معیار زندگی پر مبنی ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے 69ویں نمبر کیا جاتا ہے، اسی طرح شہریوں کی قوت خرید انڈیکس میں پاکستان کا شمار دنیا کے 78ویں ملک کے طور پر کیا جاتا ہے۔جبکہ صحت کی سہولیات کے لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے 59ویں ملک کے طور پر کیا جاتا ہے۔کاسٹ آف لیونگ یعنی زندہ رہنے کے لئے اخراجات کے انڈیکس میں پاکستان کا شمار 83ویں نمبر کے طور پر کیا جار ہا ہے۔آلودگی انڈیکس میں پاکستان کا شمار دنیا کے 14ویں آلودہ ترین ملک کے طور کیا جارہا ہے۔دنیا کی ہر مملکت میں امارت اور غربت کو ماپنے کے پیمانے علیحدہ علیحدہ ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں غربت کی بات کی جائے تو نجانے کئی کروڑ نفوس غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ پاکستان میں غریب تو غریب بجلی، گیس کے بلوں کی ادائیگی پر مڈل اور امیر کلاس کی چیخوں کی آوازیں آسمان تک پہنچ چکی ہیں۔ کہیں بجلی کے بل کی وجہ سے قتل اور کہیں خود کشی کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں جہاں ایک طرف کرپشن کے نہ ختم ہونے والے بازار سرگرم ہیں تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام کی بدولت ریاست پاکستان روزبروز کمزور سے کمزور ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کی آبادی میں بڑھنے کی رفتار تقریبا ایک اعشاریہ نو فیصد کے حساب سے اضافہ مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ اگر اسی رفتار سے پاکستان کی کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا تو اک محتاط اندازے کے مطابق سال 2050 میں پاکستان کی آبادی تقریبا چالیس کروڑ سے زائد ہوجائے گی۔آج چوبیس کروڑ پاکستانیوں کے لئے روزمرہ اخراجات پورے کرنا مشکل ترین ہوچکا ہے۔ ذراسوچیں جہاں موجودہ آبادی کو بسانے کے لئے زرعی زمینوں کو کالونیوں اور سوسائٹی میں بدلا جارہا ہے۔ اک زرعی ملک کو اپنی غذائی ضروریات پورا کرنے کے لئے دیگر اجناس کے ساتھ ساتھ گندم تک درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔
آج سے ٹھیک پچیس سال بعد جب آبادی ڈبل ہوچکی ہوگی اور اسکے ساتھ زرعی رقبہ مزید کم ہوچکا ہوگا تو کیا ہوگا؟ پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بڑھتی ہوئی آبادی اور اسکے مضر اثرات کے لئے آواز اُٹھانی چاہیے۔ اور جلد از جلد بیس، تیس سالوں کے لئے چین کی طرز پر ون چائلڈ پالیسی ترتیب دینے کے لئے قانون سازی کرنا ہوگی۔آبادی میں اضافہ کی ترغیب کے لئے مذہبی تعلیمات کی موجودگی اپنی جگہ مگر پاکستان کے مخصوص حالات کی وجہ سے پاکستانی علماء کرام سے درخواست ہے کہ وہ بھی آگے بڑھیں اور بڑھتی ہوئی آبادی کنٹرول کرنے کے لئے قوم کی رہنمائی کریں۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان و یقین ہے کہ رزق کے معاملات اللہ کریم کے ہاتھ میں ہیں لیکن ہمارا اس بات پر بھی قوی یقین ہے کہ،
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کو خیال اپنی حالت کے آپ بدلنے کا
واپس کریں