دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شیخوپورہ کا سیاسی منظر نامہ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
شہنشاہ جہانگیر کے عرفی نام شیخوسے منسوب لہندے پنجاب کا ضلع شیخوپورہ سکھ مذہب کے بابا گرونانک، پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر پیر وارث شاہ،سر گنگا رام، قائداعظم کے سیاسی رفیق محمد حسین چٹھہ، بابائے صحافت حمید نظامی، مجید نظامی،معروف سیاستدان حنیف رامے، افسانہ نگار منشاء یاد، قصہ یوسف زلیخا کے خالق صوفی عبدالستار، معروف شاعر وقار انبالوی، پروفیسر اشفاق احمد ورک، ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد ارشد، کرکٹ ورلڈکپ فاتح ٹیم کے کھلاڑی عاقب جاوید،رانا نوید الحسن، محمد آصف، عمران نذیر، ہاکی کے نامور اولمپئین اسد ملک،سعید انور، انجم سعید، نعیم امجد، اشتیاق احمد، نوید عالم جیسے کئی نامور سپوتوں کی جنم بھومی ہے۔ شیخوپورہ میں واقع ہرن مینار سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے۔ ذائقے کے اعتبار سے شیخوپورہ کا باسمتی چاول دنیا جہاں میں اپنی مثال آپ ہے۔
شیخوپورہ کو بیک وقت زرعی وصنعتی شہر قرار دیا جاسکتا ہے۔ صوبہ پنجا ب کی سیاست میں شیخوپورہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ شیخوپورہ کے کئی سیاستدان درخشاں ستاروں کی مانند سیاسی اُفق پر جگمگا تے رہے ہیں۔ اقبال ڈار، توکل اللہ ورک، نعیم حسین چٹھہ، برجیس طاہر، میاں رؤف،خان اکبر خان، رانا تنویر حسین، حاجی محمد نواز، میاں جاوید لطیف، عارف خان سندھیلہ اورمیاں خالد محمود کا شمار منجے ہوئے سیاستدانوں میں کیا جاتا ہے۔ بات کی جائے سٹی شیخوپورہ کی تو مسلم لیگ ن کے میاں جاوید لطیف کو شہر شیخوپورہ میں ڈویلپمنٹ کا کنگ قرار دیا جاتا ہے۔ شہر شیخوپورہ میں بنیادی انفراسٹکچر کی فراہمی میں میاں جاوید لطیف کا کلیدی کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی وابستگی سے ہٹ کر شیخوپورہ کے باسی انکی ترقیاتی سیاست کو پسند کرتے ہیں۔ میاں جاوید لطیف کا شمار ن لیگ کے سرکردہ رہنماوں میں ہوتا ہے۔ اپنے بے باک تبصرے اور بیانات کی بدولت میڈیا کی لائم لائٹ میں چھائے رہتے ہیں۔ سال 2024 میں انتخابات میں شکست کی وجہ سے شیخوپورہ میں مزید ترقیاتی منصوبوں کو بریک لگ چکی ہے۔ میاں جاوید لطیف کے بعد سابقہ بلدیہ چیئرمین میاں امجد لطیف اور سٹی صدر میاں منور اقبال ن لیگ کو سٹی شیخوپورہ میں متحرک رکھے ہوئے ہیں۔ میاں منور اقبال کی صدارت میں تنظیم کو نئے سرے سے منظم اور متحد کیا جارہا ہے۔ میاں منور اقبال ناراض کارکنان کو واپس جماعت میں لانے کی ذمہ داری احسن طریق سے نبھا رہے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ شہر شیخوپورہ میں ن لیگ کی سیاست رانا تنویر حسین گروپ اور میاں جاوید لطیف گروپ کی باہمی کھینچا تانی کی بدولت زبوں حالی کا شکار ہورہی ہے۔ ن لیگی اعلی قیادت کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے خرم شہزاد ورک ایڈووکیٹ نے انتہائی قلیل عرصہ میں شیخوپورہ کے باسیوں کے دلوں میں اپنا مقام بنا لیا ہے۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں بطور صدر منتخب ہونے والے خرم شہزاد ورک نے صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں قسمت آزمائی کی، انتخاب جیت کر صوبائی وزیر قانون بنے، پھر رواں برس عام انتخابات میں ناقابل شکست میاں جاوید لطیف کو شکست کا مزہ چکھایا۔ خرم شہزاد ورک قومی اسمبلی کے اندر اور باہر بہت متحرک نظر آتے ہیں اور پارٹی لیڈرشپ کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خرم شہزاد ورک اپنے حلقے کے مسائل کے حل کے لئے بھی تگ و دو کریں۔ پی ٹی آئی کی دیگر لیڈرشپ کی بات کی جائے تو ممبر صوبائی اسمبلی طیاب راشد سندھو اسمبلی ہال میں بہت متحرک نظر آتے ہیں اور شہر شیخوپورہ کے مسائل اور انکے تدارک کے لئے اسمبلی میں بھرپور آواز اُٹھاتے دیکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے سٹی صدر میاں افضال حیدر کی بات کی جائے تو انہوں نے جن حالات میں پارٹی صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اُس وقت چھوٹی بڑی تمام پارٹی لیڈرشپ زیادہ تر روپوشی اختیار کرچکی تھی۔ شہر شیخوپورہ کی سماجی و سیاسی شخصیت میاں افضال حیدر انتہائی احسن انداز سے مسند صدارت نبھاتے دیکھائی دیتے ہیں۔ پارٹی کارکنان کو جلوسوں، ریلیوں میں متحرک رکھتے ہیں۔ پارٹی کو متحد رکھنا، کارکنان و لیڈرشپ کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنا بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے پی ٹی آئی زیر عتاب ہے مگر جس حوصلہ اور منصوبہ بندی کے تحت میاں افضال حیدر پارٹی معاملات چلارہے ہیں وہ یقینی طور پر قابل تحسین عمل ہیں اور پارٹی لیڈرشپ بھی میاں افضال حیدر کے بطور سٹی صدر انتخاب پر مطمئن دیکھائی دیتی ہے اور ممکنہ طور پر آنے والے بلدیاتی انتخابات میں میاں افضال حیدر تحصیل چیئرمین یا بلدیہ چیئرمین کے مضبوط اُمیدوار کے طور پر منظر عام پر آئیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی بات کی جائے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی رحلت کے بعد شیخوپورہ میں پارٹی ناپید ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔ ملک مشتاق احمد اعوان مرحوم کے بعد کوئی قابل ذکر سیاسی شخصیت پارٹی میں نظر نہیں آتی۔ اسی طرح میاں خالد محمود سابقہ صوبائی وزیر کی سیاست کا محور صرف علیم خان کی حد تک محدود ہوچکا ہے۔ جماعت اسلامی کی بات کی جائے تو علاقے میں سب سے زیادہ عمران عثمانی متحرک دیکھائی دیتے ہیں۔
بطور قانون و سیاست کے طالب علم، میرے لئے یہ بات خوش آئیند ہے کہ برجیس طاہر، رانا تنویر، توکل اللہ ورک، نعیم حسین چٹھہ، برجیس طاہر، میاں راؤف، رانا تنویر حسین، میاں جاوید لطیف، عارف خان سندھیلہ، میاں خالد محمود، سعید ورک جیسی سینئر قیادت کے بعد شہر شیخوپورہ میں خرم شہزاد ورک، طیاب راشد سندھو، میاں افضال حیدر، میاں امجد لطیف، میاں منور اقبال، وقاص محمود مان، خان شیر اکبر خان،شہباز چھینہ، عمران عثمانی، اشتیاق ڈوگر اور محمد اویس ورک جیسی نوجوان قیادت شیخوپورہ کی سیاست سنبھالنے کو تیار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں غریب اور متوسط طبقے کے افراد کو بھی اُوپر لیکر آئیں اور اعلی ترین جماعتی عہدوں پر براجمان کر نے کے ساتھ ساتھ اسمبلی تک پہنچانے کی سعی بھی کریں، تاکہ عوام کے مسائل زیادہ سے زیادہ حل ہوں۔ سدا وسدا روے میرا سوہنا شہر شیخوپورہ
واپس کریں