محمد ریاض ایڈووکیٹ
مملکت پاکستان میں اعلی ترین عہدیدران کی مدت ملازمت میں توسیع ہمیشہ ہی سے سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ چاہے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کی توسیع کا ہو یا پھر چیف آف آرمی سٹاف کا۔ ماضی میں جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل قمر جاوید باجوہ تین سالہ توسیع لینے میں کامیاب رہے مگر جنرل اسلم بیگ اور جنرل راحیل شریف انتھک کوششوں کے باوجود توسیع لینے میں ناکام رہے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف خود ہی اپنے آپ کو توسیع دیتے رہے۔ ابھی حال ہی میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوسری توسیع کے ارادوں کا راز بھی ہمارے موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی زبان سے منکشف ہوا۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، اسی لئے ہماری سیاسی جماعتیں بھی اعلی ترین عہدیدران کے توسیعی منصوبوں میں بھرپور ساتھ نبھاتی دیکھائی دیتی ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جب پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں نے باجماعت ہوکر جنرل قمر جاویدکے عہدے میں توسیع کے لئے پارلیمنٹ کے اندر متفقہ قانون سازی کروائی تھی۔ غرض اپنی اپنی، مفاد اور نجات دہندہ اپنا اپنا۔ اسی طرح ماضی قریب ہی میں اعلی ترین عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ عمر میں توسیع کے لئے تگ و دو کی جاتی رہی ہے۔
جب اکتوبر 2019میں تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی فخر امام اور امجد علی خان نے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال کی بجائے 68سال کردی جائے۔ چونکہ اس وقت کی حکمران جماعت کے پاس آئین میں ترمیم کے لئے پارلیمنٹ میں واضح اکثریت موجود نہیں تھی لہذا یہ توسیعی منصوبہ کامیاب نہ ہوپایا۔ یاد رہے آئین پاکستان کے آرٹیکل 179 کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز بشمول چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال ہے۔ جبکہ آرٹیکل 195کے تحت ہائیکورٹ کے ججز بشمول چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62سال ہے۔ جس طرح ماضی قریب میں اعلی ترین عہدیدان کی توسیع کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے اسی طرح آج بھی صورتحال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ حد تو یہ ہے کہ ابھی ہی سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی توسیع کی باتیں ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ جیسے جیسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 26اکتوبر قریب آرہی ہے،مملکت میں چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوچکا ہے۔ بظاہر حکومتی ترجمان وزراء بار بار جسٹس قاضی فائز عیسی کی مدت ملازمت میں توسیع کی خبروں کو مسترد کررہے ہیں مگرتجزیہ کاروں کے نزدیک پاکستان مسلم لیگ ن جسٹس قاضی فائز عیسی کے عہدہ میں توسیع کے لئے ہاتھ پاؤں مارتی دیکھائی دے رہی ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ ماضی میں تحریک انصاف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس گلزاراحمد، جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس عمر عطا بندیال کو اپنا نجات دہندہ تصور کرتی رہی ہے تو آج مسلم لیگ ن جسٹس قاضی فائز عیسی کے لئےایسے خیالات کی حامی دیکھائی دیتی ہے۔ مسلم لیگ ن جو پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کی حامل نہیں بلکہ پیپلز پارٹی، ایم کیوایم، مسلم لیگ ق جیسی بیساکھیوں کے سہارے ریاست پاکستان کے انتظامی اُمور چلانے پر مجبور ہے، کیا جسٹس قاضی فائز عیسی کی توسیعی منصوبے کوپایہ تکمیل تک پہنچا پائے گی کیونکہ آئین کے آرٹیکل 238اور 239کے مطابق آئین پاکستان میں کسی قسم کی تبدیلی کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی ووٹوں سے آئینی ترمیمی بل کو منظور کروانا لازم ہے۔
بظاہر ایسا ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا۔ مگر یہ پاکستان ہے یہاں کچھ بھی ہونا یا نہ ہونا عین ممکن ہے جیسے جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے وقت حکمران و حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے بانہوں میں بانہیں ڈال کر سپہ سالار کو توسیع دلوائی تھی آج بھی اگر مقتدر حلقوں نے ارادہ کرلیا تھا توموجودہ چیف جسٹس کی توسیع میں کسی قسم کی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی او ر موجودہ حکمران و حزب اختلاف کی جماعتیں جھپی ڈال کرآئین میں ترامیم منظور کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائیں گی۔
یاد رہے19 نومبر 2019 سزا یافتہ نواز شریف علاج کے لئے کوٹ لکھپت جیل سے سیدھا لندن روانہ ہوئے اور 2جنوری 2020 پارلیمنٹ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے لئے قانون سازی ہوئی تھی۔ اور آج تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سز ا یافتہ قیدی کی حیثیت سے اڈیالہ جیل میں براجمان ہیں۔ مستقبل میں کیا ہوگا؟ کیا ہوسکتا ہے؟ یہ سب میرے سوہنے رب کو معلوم ہے۔ بحیثیت سیاست و قانون کے طالب علم میں یہ سمجھتا ہوں کہ مملکت خداداد پاکستان کو اعلی ترین عہدیدران کی مدت ملازمت میں توسیع نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جس طرح جسٹس قاضی فائز عیسی کا نوٹیفیکش 21جون 2023کو جاری ہوا کہ وہ 17ستمبر 2023سے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے، عین اس طرح جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹیفکیشن فی الفور جاری ہونا چاہیے تاکہ مملکت میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی توسیع کے حوالہ سے چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو۔
سب سے اہم بات میری رائے میں جسٹس قاضی فائز عیسی کو پریس ریلیز جاری کرنی چاہیے کہ وہ کسی قسم کی توسیع لینے کے حق میں نہیں ہیں۔ تاکہ توسیع کی آڑ میں مملکت پاکستان کسی نئی منصوبہ بندی، ہارس ٹریڈنگ اور نا گہانی تباہی سے محفوظ رہ سکے۔ اور سب سے بڑھ کر کسی فرد واحد کو توسیع دینے کا سیدھا سیدھا مطلب جانشین عہدیدران کی قابلیت پر انگلی اُٹھانے کے مترادف ہے۔ یاد رہے مملکت پاکستان کسی نئی توسیع کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
واپس کریں