دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آج بھی بھٹو زندہ ہے (حصہ ششم)
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
گزشتہ سے پیوستہ : پولیس کو اس جرم کی پہلی اطلاع میجر علی رضا نے دی جو مقتول قصوری کے دوسرے بیٹے تھے انہوں نے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس لاہور اصغر خان کو فون کرکے مطلع کیا۔ تاہم اس وقت ایف آئی آر درج نہیں کی گئی اور جب ایف آئی آر درج کی گئی تو اس میں میجر علی رضا کا بطور شکایت کنندہ حوالہ نہیں دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میجر علی رضا کو بطور گواہ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ ٹرائل کورٹ کے ساتھ ساتھ اپیل کورٹ نے اس واضح بے ضابطگی پر توجہ ہی نہ دی۔ احمد رضا قصوری نے جرم کے تقریباً تین گھنٹے گزر جانے کے بعد ایک تحریری شکایت جمع کروائی، جس میں انہوں نے مسٹر بھٹو کا ذکر کیا۔ ایف آئی آر 11 نومبر 1974 کو صبح پونے چار بجے درج کی گئی، جس میں میجر علی رضا کی بجائے احمد رضا قصوری کو شکایت کنندہ کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ اور استغاثہ نے الزام لگایا کہ ایف آئی آر کے مندرجات کو بنیاد بنا کر ایک سازش کی گئی تھی، جس کو عدالتوں نے بلاشبہ قبول کر لیا۔ یہ ایک اور پہلو تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنانے کے لیے قانون اور آئینی تحفظات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
بھٹو کے ساتھ تمام شریک چھ ملزمان کو جنرل ضیاء کے اقتدار سنبھالنے اور مارشل لاء کے نفاذ کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور ان سب نے اعتراف جرم کر لیا تھا۔ اس حیرت انگیز اتفاق کو نہ تو ٹرائل کورٹ اور نہ ہی اپیل کورٹ نے غیر معمولی سمجھا اور نہ ہی کبھی اس بات پر غور کیا گیا کہ آیا یہ اعترافات قابل پذیرائی ہوسکتے ہیں۔ ملزمان میں سے دو کو معاف کر دیا گیا اور انہیں وعدہ معاف گواہ بنا لیا گیا۔ ایک نے ٹرائل کورٹ کے سامنے اپنا اعتراف واپس لے لیا لیکن اسے اپیل کورٹ کے سامنے دہرایا۔ باقی تینوں شریک ملزمان نے اپنے دفاع کے لئے کسی وکیل کی خدمات بھی حاصل نہ کیں۔ جبکہ ٹرائل کورٹ نے ان تینوں کی نمائندگی کے لیے ریاستی خرچ پر ایک وکیل مقرر کیا، تاہم، ان کے وکیل ہر موڑ پر اپنے مؤکلوں کو قتل کے الزام سے بچانے کی بجائے ملوث کرنا چاہتے تھے۔ اور ملزمان کے ریاستی وکیل بھٹو اور انکے مؤکلوں کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے استغاثہ کے مقدمے کو تقویت دینے میں مصروف عمل دیکھائی دیئے۔ جبکہ ملزمان کے ریاستی وکلاء اور ٹرائل کورٹ کا فرض تھا کہ وہ ان تینوں شریک ملزمان کو سمجھائے کہ اعلیٰ افسر کے حکم کی پابندی کرنا قتل کے الزام کا دفاع نہیں ہے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں نو ججوں نے بھٹو کی طرف سے دائر اپیل کی سماعت شروع کی اور 30 جولائی 1978 تک سماعت کی، جس کے بعد 21 اگست 1978 کو سات ججوں نے اس کی سماعت کی اور انہوں نے 6 فروری 1979 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ نو ججوں میں سے ایک قیصر خان تھے۔ جو 30 جولائی 1978 کو اپنی پینسٹھویں سالگرہ پر ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ آئین کے مطابق ایک ایڈہاک جج کی تقرری اس کی ریٹائرمنٹ کے تین سال کے اندر کی جا سکتی ہے، لیکن اپیل کی سماعت کے باوجود اسے تعینات نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں اپیل کنندہ یعنی بھٹو کی درخواست پر غور نہیں کیا گیا۔ ایک اور جج، وحیدالدین احمد، اس وقت بیمار ہوگئے جب اپیل سماعت کے آخری مراحل میں تھی اور انہیں صحت یاب ہونے میں تقریباً چھ ہفتے درکار تھے، لیکن کیس کو ملتوی کرنے اور دوبارہ کام شروع کرنے کا انتظار کرنے کے بجائے اپیل کی سماعت جاری رکھی گئی اور بالآخر جسٹس وحید الدین احمد کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا دیا گیا۔ یہ بات قابل فہم نہیں ہے کہ جسٹس قیصر خان کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایڈہاک جج کے طور پر کیوں تعینات نہیں کیا گیا اور اپیلٹ کورٹ نے جسٹس وحید الدین احمد کا بینچ میں دوبارہ شامل ہونے کا انتظار کیوں نہ کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر اپیل کورٹ کا فیصلہ متفقہ ہوتا تو یہ غیر ضروری ہوتا، لیکن جب چار ججوں نے سزا کو برقرار رکھا اور تین نے بھٹو کو بری کر دیا تو یہ انتہائی تشویشناک بات تھی۔
نئے آئین کے تحت فضل الٰہی چوہدری پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ آئین، صدر پاکستان کو کسی بھی عدالت کی طرف سے دی گئی سزا کو معاف کرنے، معطل کرنے یا کم کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ صدر فضل الٰہی چوہدری نے اپنی مرضی سے جنرل ضیاء الحق کو خط لکھا تھا جس میں ماورائے عدالت تحفظات کی وضاحت کی گئی تھی۔ تاہم، ہائی کورٹ نے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے بھٹو کے وکیل کے ساتھ ناقابل فہم برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ان حالات میں موجودہ کارروائی میں اس خط کو پیش کرنا اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں، ہم اس طرح کی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔ تاہم جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ صدر فضل الٰہی چوہدری کی جانب سے لکھے گئے خط میں ماورائے عدالت وجوہات کا ذکر کرنے کے باوجود بھٹو کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 45 کے مطابق کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ آئین و قانون کے تابع مناسب عمل کی ایک اور خلاف ورزی تھی۔جسٹس مشتاق حسین نے قائم مقام چیف جسٹس کی حیثیت سے لاہور ہائی کورٹ کے اس بنچ کی سربراہی کی جس نے بھٹو کو سزا سنائی تھی اور جسٹس انوار الحق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور اس بنچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے سزا کو برقرار رکھا تھا۔ ان دونوں ججوں کا عہدہ سنبھالنا کچھ غیر معمولی تھا۔ (جاری ہے۔۔۔)
واپس کریں