دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آج بھی بھٹو زندہ ہے (حصہ اول)
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
سال 2011 صدر آصف علی زرداری کی جانب سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 186کے تحت سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا۔ پاکستانی عدلیہ کے معزز ججز جو آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی اور ایمانداری سے اپنی بہترین صلاحیت اور دیانتداری سے انجام دینے اور آئین پاکستان کی حفاظت اور دفاع کا حلف اُٹھاتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں، ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ، قانون کے مطابق، بلا خوف و خطر، پیار اور ناخوشگوار سلوک کریں گے مگر افسوس سال 2011سے لیکر دسمبر 2023 تک پاکستان کے کسی چیف جسٹس کو صدارتی ریفرنس کو عدالتی کاز لسٹ میں شامل کرنے کی ہمت و جرآت پیدا نہ ہوسکی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو اس بات کا کریڈٹ ضرورجاتا ہے کہ جہاں انہوں نے کئی دلیرانہ اقدامات کئے ہیں جیسا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجز ایکٹ کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی سپریم کورٹ میں ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ، اہم مقدمات کی براہ راست نشریات ، فیض آباد دھرنا نظر ثانی مقدمہ ، جسٹس شوکت صدیقی کی بحالی ، اسی طرح سپریم کورٹ کے سردخانوں میں چھپائے گئے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر صدارتی ریفرنس کو کاز لسٹ میں شامل کرنا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پر مشتمل بینچ نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر اُٹھنے والے تمام سوالوں کے جوابات کی تلاش میں آمر ضیاءالحق کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات اور عدلیہ میں بیٹھے آئین و قانون کے رکھوالے ججزکے گھناؤنے کردار آشکار کردیے ہیں۔ صدارتی ریفرنس کے جواب میں سپریم کورٹ کی جانب سے 48 صفحات اور 78 نکات پر مشتمل جاری تفصیلی فیصلہ/رائےکو قانون و سیاست کے طالبعلم حتی کہ پاکستان کے ہر شہری کو پڑھنا بہت ضروری ہے تاکہ پاکستانی عوام کو پتا چلے کہ ماضی میں ہمارے حکمرانوں اور عدلیہ میں بیٹھے نام نہاد ججز نے کیا کیا سیاہ کارنامے اور گل کھلائے تھے اور کیسے ان آمروں اور ججوں نے آئین و قانون کی دھجیاں اُڑائی تھیں۔ پاکستان یا شائد دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہوگا کہ بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمہ کا ٹرائل سیشن کورٹ کی بجائے براہ راست ہائیکورٹ میں کیا گیا۔بہرحال عدالتی رائے کی بدولت تاریخ کے اوراق میں پوشیدہ حقائق منظر عام پر آچکے ہیں۔ آئیے سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی ریفرنس پر جاری شدہ رائے میں تلخ حقائق کا مطالعہ کریں:
اول: ٹرائل اور اپیل کورٹس، جنہوں نے مقدمے کی سماعت کی اور اپیل کی سماعت کی، آئین کے تحت حقیقی عدالتیں نہیں تھیں۔ ملک مارشل لاء کا اسیر تھا اور اس کی عدالتیں بھی۔ جب جج آمروں سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں تو عدالتیں عوام کی نہیں رہتیں۔
دوم: سپریم کورٹ کے تین معزز ججز جنہوں نے بھٹو کو بری کیا تھا، انہوں نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا تھا کہ مملکت میں 5 جولائی 1977 سے آئین میں درج بنیادی حقوق معطل ہیں اور یہ کہ بھٹو کو آئین میں بنیادی حقوق اور دیگر حقوق کا آئینی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ اور یہ انکشاف کیا کہ آئین معطلی کے دوران دیگر بے گناہوں کو پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا گیا تھا۔
سوم: ٹرائل کورٹ، جس نے بھٹو پر مقدمہ چلایا تھا اور انہیں سزا سنائی تھی، اور اپیل کورٹ، جس نے ان کی اپیل خارج کر دی تھی، اس وقت کام کر رہی تھی جب ملک میں کوئی آئینی قاعدہ قانون نہیں تھا اور ایک آدمی کی مرضی اور خواہش قانون سازی بن گئی تھی اور آئین و قانون کی جگہ فرد واحد جنرل ضیاءالحق نے لے لی تھی۔ بدقسمتی سے عدالت نے بھٹو کیس میں، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو سراہا۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نےملک بچانے کے لیے قدم بڑھایا ہے۔ کیا یہ واضح نہیں تھا کہ مجرم کے فیصلے کا براہ راست فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوگا۔
اگر بھٹو بری ہوجاتے تو وہ جنرل ضیاء الحق کے خلاف سنگین غداری کے جرم میں مقدمہ چلا سکتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی ذاتی بقا کا انحصار بھٹو کے مجرم قرار دیے جانے پر تھا۔ غاصب اقتدار کے تسلسل کے لیے مسٹر بھٹو کو سزا سنانے کی ضرورت تھی۔جبکہ دین اسلام مراعات یافتہ طبقات کی تخلیق پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ سب کی قانون کے سامنے برابری پر یقین رکھتا ہے - حکمران اور حکومت یکساں۔ یہ ہر قسم کی طبقاتی تفریق کے خلاف ہے۔ یہاں تک کہ خلیفہ، بادشاہ، وزیر اعظم یا صدر، حکمران کو جس بھی نام سے پکارا جائے، ملک کے قانون کا اتنا ہی تابع ہے جتنا کہ کوئی عام شہری، لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کا، جس نے اپنے اندر ایک مطلق العنان بادشاہ کے تمام اختیارات جمع کر لیے تھے۔
چہارم: بھٹو نہ تو کرپشن کے مقدمے میں تھے اور نہ ہی آئین کی خلاف ورزی کے الزام میں، تاہم معزز جج صاحبان نے ان معاملات کے بارے میں بھی بے جا ریمارکس دیے۔
پنجم: جسٹس مشتاق حسین مقدمے کی سماعت ہائی کورٹ منتقل کرنا، ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ سے زیر التواء شکایتی کیس کو ہٹا کر ٹرائل کورٹ کے سامنے طے کرنا، جس کے وہ خود سربراہ تھے، غیر معمولی تھا۔ قانون پر عمل نہیں کیا گیا اور طے شدہ طریقہ کار سے ہٹ گئے۔جسٹس مشتاق حسین کی جانب سے بھٹو کو نوٹس جاری کیے بغیر مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ منتقل کرنے کے حوالے سے حکم نے اس پرانی حکمت کو نظر انداز کیا کہ ایک فریق سماعت کے موقع کا حقدار ہے۔ بھٹو مقدمہ میں کہا گیا کہ موجودہ معاملے میں اس طرح کے نوٹس کی ضرورت نہیں تھی۔
ششم: لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے مقدمے کی کارروائی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی اپیل پر منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حق اور آئین کے آرٹیکل 4 اور 9 میں درج مناسب عمل کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ۔جبکہ آئین کے آرٹیکل 10A کے تحت علیحدہ اور آزاد ٹرائل کی ضمانت دی گئی ہے۔ (جاری ہے۔۔۔۔)

واپس کریں