سہیل وڑائچ
کنفیوژن تو بہت ہے مگر تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کی گنتی پوری ہے، کئی ہفتوں سے کھوج لگایا جا رہا تھا کہ اپوزیشن کے پاس نمبر پورے بھی ہیں یا نہیں۔ اب آکر یہ واضح ہوگیا ہے کہ آصف زرداری نے اندر ہی اندر گنتی پوری کرلی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گنتی فلور کراسنگ کی زد میں آنے والے اراکین سے ہٹ کر ہے۔ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد شروع سے پراسرار رنگ لیے ہوئے ہے، اندر کی کوئی خبر نہ زرداری کیمپ سے باہر آ رہی ہے نہ شہباز شریف کیمپ سے۔ سب نے اپنے کارڈ سینے سے لگا رکھے ہیں لیکن پی پی پی کی ہائی کمان اور ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کویقین ہے کہ وہ کامیابی سے ہم کنار ہونے والے ہیں۔
دراصل تحریک عدم اعتماد صرف عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے نکالنے کےلیے نہیں لائی گئی بلکہ اس کا ہدف اگلے انتخابات، اگلے آرمی چیف کا تقرر یا توسیع اور اگلے سیاسی سیٹ اپ کا منظر نامہ تیار کرنا بھی ہے۔
حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا کافی مشکل اور محنت طلب کام ہے، حکومت کے پاس اتنے وسائل اور اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ ایم این ایز میں وزارتیں، عہدے اور فنڈز بانٹ سکتی ہے جبکہ اپوزیشن تو صرف منصوبہ بندی اور وعدہ فردا پر لوگوں کو ٹال سکتی ہے لیکن یہ مشکل کام زرداری اور شہباز شریف کی مکمل انڈر سٹینڈنگ سے پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اتحادی جماعتوں سے خفیہ ڈپلومیسی کے ذریعے مذاکرات کرکے انہیں مطمئن کیا گیا۔ یہ بھی فرض کیا گیا ہے کہ اگر پوری اتحادی جماعت نہیں ٹوٹتی تو اس کا ایک حصہ تحریک عدم اعتماد کی ظاہری حمایت کرکے مخالفین کے منہ بند کرسکتا ہے۔
رہی بات جہانگیر ترین اور علیم خان کی، وہ اپنی حکمت عملی کے تحت بے شک اعلان کریں یا نہ کریں اور مناسب وقت اس اعلان کے لیے چنیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ دونوں وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہو چکے ہیں اور آپس میں ان کی صلح کا امکان ہے۔
پہلے اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ شاید علیم خان گروپ اور چھینہ گروپ کو صرف پنجاب کی قیادت پر اعتراض ہے لیکن اندرونی حلقوں سے پتہ چلا ہے کہ انہیں وفاقی حکومت اور وزیر اعظم سے شکایات پنجاب سے بھی زیادہ ہیں اور وہ اپنے اختلافات کو مناسب وقت پر ظاہر کر دیں گے۔ علیم خان ہوں، جہانگیر ترین گروپ ہو یا منحرف اراکین، ان سب کو خدشہ ہے کہ اگلے انتخابات میں انہیں پی ٹی آئی کے ٹکٹ نہیں ملیں گے اس لیے انہیں ابھی سے یہ منصوبہ بندی کرنی ہے کہ انہیں اگلا الیکشن کس پارٹی سے لڑنا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران ویسے تو پارٹی ڈسپلن میں بہت سخت ہیں لیکن پنجاب میں ڈسپلن کا حال انتہائی پتلا ہے، صوبائی وزرا کھلے عام فارورڈ بلاکس میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں اور عمران خان اور عثمان بزدار کی گرفت اس قدر کمزور ہے کہ وہ ان وزراکو نہ کابینہ سے نکال سکے ہیں حتیٰ کہ انہیں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر نوٹس تک نہیں دے سکے۔
تحریک عدم اعتماد آئی تو وفاق میں ہے لیکن اس کا پنجاب میں یہ اثر پڑا ہے کہ یہاں تو یوں لگتا ہے کہ عام بغاوت ہوگئی ہے، کئی گروپ اور کئی نقطہ نظر ابھر آئے ہیں جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ پنجاب میں گڑ بڑ اس قدر بڑھ گئی ہے کہ تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔
وفاق میں اپوزیشن کا ٹارگٹ تو 172 ارکان ہیں لیکن وہ اس تعداد کو 200 تک پہنچانا چاہتی ہے تاکہ نمبر گیم میں کوئی شک و شبہ نہ رہے۔ اپوزیشن اپنی نمبر گیم کو پوری کرنے کے لیے حکمت عملی بدلتی رہی ہے پہلے متحدہ اپوزیشن نے زور لگایا کہ حکومت سے اتحادی توڑے جائیں، شروع میں اس میں مشکل پیش آئی کیونکہ اتحادیوں کے حکومت سے مفادات جڑے ہوئے ہیں، اس کے بعد حکمت عملی میں تبدیلی کرکےپی ٹی آئی کے اندر شگاف ڈالنے کی کوشش ہوئی، اس میں ابتدائی کامیابی ہوئی لیکن پی ٹی آئی نے آرٹیکل 63 کا ایسا ڈراوا دینا شروع کیا کہ پی ٹی آئی کا مرکز میں باغی گروپ خود ہی دم توڑ گیا۔
حکومت نے طے کرلیا کہ وہ اپنے پارٹی ایم این ایز کو کسی صورت عدم اعتماد کے حق میں ووٹ نہیں ڈالنے دے گی، حکومت اس حوالے سے اپنی پوری ریاستی طاقت بھی استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن نے ان اطلاعات کے بعد پھر سے حکمت عملی بدلی اور اپنی پوری توجہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کی طرف مرکوز کردی اور اب اپوزیشن کو یقین ہے کہ وہ بغیر لوٹوں کے اتحادی جماعتوں ہی کی مددسے حکومت کو ہٹالے گی۔
اپوزیشن اپنے طور پر طے کرچکی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے گا فی الحال الیکشن نہیں ہوںگے، اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔
دوسری طرف ہماری اسٹیبلشمنٹ کے قریبی دو وزرا شیخ رشید اور چوہدری فواد حسین نے عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے کی صورت میں چھ ماہ کے اندر الیکشن کروانے کی بات کی ہے، دونوں وزیر مقتدر حلقوں سے چاہتے ہیں کہ وہ بیچ میں پڑ کر حکومت اور اپوزیشن میں صلح کروا دیں وگرنہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام دونوں صورتوں میں ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔ ان دونوں وزیروں کی رائے کو پذیرائی ملتی ہے یا نہیں یہ آئندہ چند دنوں میں ظاہر ہوگا۔
تحریک عدم اعتماد دراصل ایک آئینی اور جمہوری عمل ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں تحریک عدم اعتماد آئی تھی تو اس وقت کے اسپیکر ملک معراج خالد نے اس معاملے کو اس خوش اسلوبی سے نمٹایا کہ پیپلزپارٹی کو اپنے ہی اسپیکر کی جانبداری کا شبہ پیدا ہوگیا بالآخر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی۔
اب بھی اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے اور اس معاملے کو ایوان کی چار دیواری کے اندر محدود رکھنا چاہیے وگرنہ اگر لڑائی جھگڑا اور تصادم ہوا تو اس سے صرف حکومت کو نہیں پورے جمہوری نظام کو نقصان پہنچے گا۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایوان کے کسٹوڈین ہیں وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کرکے سب کو رولز آف دی گیم کا پابند بنائیں، عدم اعتماد کے موقع پر آئین یا قانون سے انحراف نقصان دہ ہوگا اگر سب کچھ آئین کے اندر رہ کر کیا گیا تو حکومت جانے کے باوجود جمہوریت کا بھرم رہ جائے گا۔
واپس کریں