مہمان کالم
سپریم کورٹ کے تیرہ رُکنی بینچ میں شامل آٹھ معزز جج صاحبان کے ’’تاریخ ساز‘‘ فیصلے کی رُو سے خواتین اور اقلیتوں کی متنازعہ نشستیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والی ’’سُنّی اتحاد کونسل‘‘ کو ملیں گی نہ اسمبلیوں میں موجود دوسری جماعتوں کو۔ اِن نشستوں کے حقدار، مختلف اسمبلیوں میں بیٹھے وہ افراد ہیں جنہوں نے کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ یا نشان پر الیکشن نہیں لڑا، جو آزادانہ حیثیت سے انتخابی اکھاڑے میں اترے، جنہوں نے اسمبلیوں میں آجانے کے بعد بھی پی۔ٹی۔آئی سے وابستگی کا اعلان کرتے ہوئے کوئی اجتماعی نظم قائم نہیں کیا، جو آئین وقانون کی دی گئی معیاد کے اندر اندر بہ قائمی ہوش وحواس اور بصد عجز ونیاز اپنی آزادانہ مرضی وخوش دِلی سے ایک اور رُکن سے جاملے جو اُنہی کی طرح بطورِ آزاد اسمبلی میں آیا تھا۔ انہوں نے خود فریبی کے لئے یہ تصوّر کر لیا کہ ہم ’’سُنّی اتحاد کونسل‘‘ نامی سیاسی جماعت میں شامل ہوگئے ہیں ۔ یہ ہرگز نہ سوچا کہ ہم ایک بے چہرہ اور بے نام ونشان جماعت میں شامل ہونے کے بجائے خود اپنی جماعت، تحریکِ انصاف، کا احیا کرکے اُس میں کیوں شامل نہیں ہوجاتے؟
جلد ہی پی۔ٹی۔آئی اور اُس کے وکلاء کو بھیانک غلطی کا احساس ہوگیا لیکن تیرکمان سے نکل چکا تھا۔ قانونی جنگ لڑنے سے پہلے وہ اِس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اب یہ مخصوص نشستیں کسی طور پی۔ٹی۔آئی کو نہیں مل سکتیں۔ سو پی۔ٹی۔آئی نے، سُنّی اتحاد کونسل کو اُبھارا جو عدالت جا پہنچی۔ پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے اتفاق رائے سے قرار دیا کہ یہ نشستیں پی۔ٹی۔آئی کو مل سکتی ہیں نہ سُنّی اتحاد کونسل کو۔ لہذا اُنہیں اسمبلیوں میں موجود دیگر جماعتوں میں، اُن کی تعداد کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔ سُنّی اتحاد کونسل، داد رسی کی اپیل لے کر سپریم کورٹ آگئی۔
نو طویل سماعتوں کے بعد تیرہ رُکنی بینچ میں شامل آٹھ عالی مرتبت منصفانِ کرام نے معاملے کی نزاکت اور حساسیت کی وجہ سے آئینی وقانونی موشگافیوں میں پڑنے اور بے ثمر دماغ سوزی کرنے کے بجائے، انصاف کا ایک لامحدود، وسیع تر اور آفاقی تصوّر اپناتے ہوئے سارے معاملے کو مسندِ عدل پر بیٹھ کر دیکھنے کے بجائے پی۔ٹی۔آئی کے دِل کے نرم ترین گوشے میں آسن جمایا، آئین کی سبز کتاب ایک طرف رکھی اور طویل مراقبے کے بعد بحرِ عدل وانصاف سے یہ گوہرِ تابدار نکال کر لائے کہ بے شک پی۔ٹی۔آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے، بے شک اِس کے امیدواروں کے پاس پی۔ٹی۔آئی کا ٹکٹ تھا نہ انتخابی نشان، بے شک انہوں نے اسمبلیوں میں آنے کے بعد، آزاد ارکان کے طورپر غیرمشروط حلف اٹھالیا، بے شک اپنی آزاد حیثیت اور پی۔ٹی۔آئی سے وابستگی سے دستکش ہوکر وہ ’’سُنّی اتحاد کونسل‘‘ میں شامل ہوگئے، بے شک وہ کوئی عرضداشت اور فریاد لے کر ہمارے پاس نہیں آئے، بے شک وہ بھی مخصوص نشستیں ’’سُنّی اتحاد کونسل‘‘ کو دینے کے آرزو مند ہیں، لیکن آئین وقانون کا تقاضا جو بھی ہو، وسیع تر آفاقی انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ یہ نشستیں ایک بڑے گفٹ پیک میں باندھ کر پی۔ٹی۔آئی کے حوالے کردی جائیں۔ بلاشبہ جج صاحبان کے سامنے ’’عدلِ جہانگیری‘‘ کی ایسی کئی مثالیں موجود ہوں گی جو ہماری بیاضِ عدل میں سنہری اوراق کے طورپر موجود ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے، تسلیم کرنا پڑے گا کہ معزز جج صاحبان نے ستّرسالہ پرانے نظریۂِ ضرورت‘‘ کو فرسودہ خیال کرتے ہوئے ایک نیا، تازہ دَم اور وسیع المقاصد نظریہ تخلیق کیا ہے جسے ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریہ انصاف کے نگہبانوں کی بالغ نظری اور فکری بلُوغت کی دلیل ہے۔ اس نظریے کی اساس زمانہ قبل از مسیح کے پنچایتی نظام پر رکھی گئی ہے۔ پنچوں کے سامنے آئین کی کوئی کتاب ہوتی ہے نہ قانون کا کوئی کتابچہ۔ کوئی ضابطۂِ فوجداری نہ ضابطۂِ دِیوانی۔ بس چند بڑے بوڑھے کسی گھنے پیڑ کے نیچے چارپائیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حُقے کے کش لیتے، زیرنظر معاملے پر چھلچھلاتی سی نظر ڈالتے اور اپنی صوابدیدپر فیصلہ صادر فرمادیتے ہیں۔ یہ فیصلہ جو بھی ہو، جیسا بھی ہو، سب فریقوں پر واجب ولازم ہوتا ہے۔ کچھ کم فہم سے لوگ اکیسویں صدی کے اس روشن وبیدار عہد میں زمانۂِ قبل از مسیح کے پنچایتی نظام کو ملک وقوم کے لئے نیک شگون خیال نہیں کرتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ آئین وقانون کو بے معنی بنادیاگیا اور ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کے مطابق مہم جویانہ فیصلے صادر ہونے لگے تو ’’مہم جوئی‘‘ کو فروغ ملے گا اور من مانی پر مبنی سہولت کاری کسی ایک ادارے کی میراث نہیں رہے گی۔ لیکن میرے خیال میں ہمارے منصفینِ کرام ہم سے کہیں زیادہ زِیرک، کہیں زیادہ معاملہ فہم اور کہیں زیادہ دُوراندیش ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کا اطلاق کن نیک چلن جماعتوں اور پاکباز شخصیات پر ہوگا۔ ’’نظریۂِ ضرورت‘‘ کن صاحبانِ تیغ وتبر کے لئے بروئے کار آئے گا اور آئین وقانون کے تازیانے کس کی پشت پر برسائے جائیں گے۔
بحث مباحثے سے ہٹ کر، زندہ وتابندہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ قومی اسمبلی سمیت پانچ اسمبلیوں میں نابود سمجھی جانیوالی پی۔ٹی۔آئی ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کی ایک ہی جادوئی پھونک سے، زندہ ہوگئی ہے۔ بقول سینیٹر علی ظفر ’’ہمیں اسکی کوئی امید تھی نہ توقع۔ سپریم کورٹ نے تو ہماری بہت سی غلطیاں بھی درست کردی ہیں۔‘‘ سینیٹر صاحب کو شاید علم نہیں کہ ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کیسے کیسے معجزے رقم کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں رائج نظامِ عدل کی رُو سے فیصلہ دینے کے بعد عدالت کا دروازہ بند ہوجاتا ہے لیکن ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کے تحت ’’آفٹر سیل سروس‘‘ کا اہتمام بھی کیاگیا ہے چنانچہ جج صاحبان نے واضح کردیا ہے کہ اگر کسی مرحلے پر پی۔ٹی۔آئی کو فیصلے کے حوالے سے ہماری راہنمائی ، مشکل کُشائی اور سہولت کاری کی ضرورت محسوس ہو تو بخوشی رابطہ کرسکتی ہے۔ اُدھر پی۔ٹی۔آئی سے جُڑے اَرکان پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہے ہیں۔ ’’ہم کون ہیں؟ کیا ہم آزاد ہیں؟ کیا ہم سُنّی اتحاد کونسل کے رُکن ہیں؟ کیا اَب ہم پی۔ٹی۔آئی میں آگئے ہیں؟ ہم نے تو حلف نامے داخل کرکے سُنّی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اُن حلف ناموں کا کیا بنے گا؟ کیا کوئی آزاد رُکن حلف نامہ دے کر کسی جماعت میں شامل ہوجانے کے بعد اپنا حلف توڑ کر کسی دوسری جماعت میں شامل ہوسکتا ہے؟ کیا کوئی عدالت کسی رُکن کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ فلاں جماعت سے نکل کر فلاں جماعت میں چلا جائے؟ کہیں ہم پر آئین کے آرٹیکل 62۔63 کا اطلاق تو نہیں ہوجائے گا؟
کوئی اُنہیں سمجھائے کہ دِل چھوٹا نہ کریں۔ پنچایتی فکر پر مبنی ’’نظریۂِ سہولت‘‘ آئین وقانون کی زنجیروں سے آزاد ہوتا ہے۔ اگر وہ بیٹھے بٹھائے پی۔ٹی۔آئی کو مالا مال کرسکتا ہے تو آنے والی کسی انہونی سے بچانے کی سکت بھی رکھتا ہے۔
مضطرخیرآبادی کا معروف شعر ہے
خدا کی دَین کا موسی ؑ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
حضرت موسی ؑ تو آگ کی تلاش میں بڑے جتن کرکے کوۂِ طور کی چوٹی پر پہنچے تھے کہ ربّ رحیم وکریم نے انہیں نبوّت سے نواز دیا۔ پی۔ٹی۔آئی تو کہیں گئی بھی نہیں۔ نہ کوئی تلاش، نہ کوئی استدعا بقولِ فیض ’’نہ سوالِ وصل نہ عرض غم، نہ حکایتیں، نہ شکایتیں‘‘ مگر’’نظریۂِ سہولت‘‘ کی بے پایاں شفقت ومحبت نے ماں کی ممتا کی طرح اُسے گود میں لیا اور مالامال کردیا۔ 1954سے 2024تک، ستّر برس میں ’’نظریۂِ ضرورت‘‘ کی بلندیوں کا ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کی رَفعتوں سے ہم کنار ہوجانا، ہمارے نظامِ عدل وانصاف کی قابلِ رشک خوش نصیبی ہے۔
واپس کریں