سہیل وڑائچ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سندربن کے جنگلوں میں خاکی شیروں کی حکومت تھی، اصل طاقت اور اختیار شیروں کے پاس تھا کبھی شیر خود جنگل کو براہ راست چلاتے تھے اور کبھی وہ جنگل کے جانوروں کی منتخب حکومت کو سامنے کر دیتے تھے۔ کئی دہائیوں سے شیروں کا یہ گروپ حکومت کرتے کرتے تجربہ کار ہو چکا تھا۔ شیروں کا پچھلا بادشاہ باتوں کا دھنی تھا، لمبی لمبی گفتگو کرتا تھا، اپنے اردگرد کی دنیا کے بارے میں آگاہی رکھتا تھا مگر حالات کی رو میں بہنے کی عادت تھی خود ہی ایک حکومت کو لایا اور پھر خود ہی اس سے مایوس ہو گیا، وہ اپنے سے پچھلے بادشاہ کو درشنی کہتا تھا جو صرف شو پیس تھا اسے چلانے والا شیروں کا گروہ اسکی شکل دکھا کر اپنا ایجنڈا پورا کر تا تھا۔ شیروں کا آج کل کا بادشاہ بالکل مختلف ہے عام جانوروں سے نہیں ملتا اپنا چہرہ زیادہ دکھانے کا قائل نہیں قول سے زیادہ عمل پر یقین رکھتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ عام جانوروں کی منتخب حکومت ہی معاملات کو چلائے۔
موجودہ بادشاہ کو برسراقتدار لانے میں سب سے زیادہ ہاتھ لومڑ کا ہے، لومڑ کو لایا تو پچھلا باتوں کا دھنی بادشاہ تھا، وہ بادشاہ اپنی لائی ہوئی حکومت سے مایوس تھا مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اگلا بادشاہ اپنی مرضی کا لانا چاہتا تھا، لومڑ نے ایک سیاسی جماعت سے گہری دوستی گانٹھ لی اور پچھلے بادشاہ کی سیاست کو ناکام کر کے موجودہ بادشاہ کو گدی پر بٹھا دیا، لومڑ کے ساتھ ساتھ نئے بادشاہ کا دوسرا بڑا ساتھی بارہ سنگھا ہے۔ لومڑ اور بارہ سنگھا متضاد شخصیتوں کے مالک ہیں۔ لومڑ چالاک، ہوشیار، کرشمہ ساز ہے جبکہ بارہ سنگھا ڈھیلا ڈھالا مگر DOERہے، منصوبہ بندی میں لومڑ ماہر ہے تو ناممکن کو ممکن بنانے کے فن میں بارہ سنگھا یکتائے روزگارہے۔ لومڑ بارہ سنگھے سے سینئر ہے مگر بارہ سنگھا بہت سے کام لومڑ سے پوچھے بغیر بھی کر گزرتا ہے شیر بادشاہ اور لومڑ جاڑے کے انتخابات میں کیچڑ میں پھنس گئے تو بارہ سنگھے نے اپنے خوفناک سینگوں کی مدد سے راتوں رات ان کو نکال لیا۔ آج کے خاکی بادشاہ کے دونوں مشیر بہت کام کے ہیں دونوں اسکے وفادار ہیں اور اس کے ہر آرڈر پر عملدرآمد کرتے ہیں مگر دونوں کے سٹائل مختلف ہیں، اس وجہ سے ان دونوں میں شدید کشمکش جاری ہے۔ بادشاہ کو اس چپقلش کی وجہ سے شدید نقصان پہنچ رہا ہے، بادشاہ کی عملداری میں وزراء اور عمال دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں، گورنروں کی تقرری التوا میں ہے، بانی پی ٹی آئی سابق کھلاڑی حکمران کے ساتھ معاملے کا فیصلہ کرنا باقی ہے، سیاست اور گورننس رکی ہوئی ہے سندر بن کے سارے جانور دم بخود ہیں کہ دیکھیں لومڑ کا عہدہ برقرار رہے گا یا بارہ سنگھے کا؟ جانور بڑے محتاط ہیں کئی ایک کا خیال ہے کہ لومڑ اور بارہ سنگھا دونوں برقرار رہیں گے کیونکہ دونوں کی مختلف آراء کے باوجود دونوں خاکی بادشاہ کے وفادار ہیں مگر سندر بن کے دانشور بن مانسوں کا خیال ہے کہ اگلے دو مہینوں میں یا بارہ سنگھا رہے گا یا پھر لومڑ، دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے۔
بارہ سنگھے کا وسیع حلقہ احباب ہے، مہران اور بلوچستان کے جنگلوں میں بہت سے عہدیدار اس سے جڑے ہوئے ہیں یہ تعلقات اسکی مضبوطی کا باعث بھی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ اسکے کندھوں پر بوجھ بھی بنے ہوئے ہیں۔ جاڑے کے ووٹوں کے دوران بارہ سنگھے پر بہت الزام لگے، کبھی بادشاہ کو کہا گیا کہ جیتنے والوں سے اشرفیاں لی گئی ہیں دوسری طرف لومڑ اپنا کام اکیلے ہی ڈالتا ہے اسکی آنکھوں میں جادوئی کشش ہے چہرے سے روشنی نکلتی ہے خوبصورت لومڑیاں اسکے حلقے میں رہنا پسند کرتی ہیں وہ بہت عقلمند ہے اور اسے اپنی عقلمندی پر ناز بھی بہت ہے وہ کسی دوسرے کو عقل اور تجربے میں برابر نہیں سمجھتا اس لئے جانور اسے چالاک سمجھتے ہیں جبکہ بارہ سنگھا ماضی میں مہران اور بلوچستان کے جنگلوں میں خوفناک کارنامے سرانجام دے چکا ہے اسکی ہر جگہ ٹیم موجود ہے۔
خاکی بادشاہ کو سندربن پر حکمرانی کو مضبوط کرنا ہے تو اس نے پہلا فیصلہ یہ کرنا ہے کہ نئی حکومت کو فری ہینڈ دے کر اسے پوری طرح سپورٹ کرنا ہے یا پھر ماضی کی طرح اس حکومت پر پوری نظر رکھنی ہے اور اسے اتنا مضبوط نہیں کرنا کہ وہ دوسروں کیلئے خطرہ بن جائے۔ اگر تو خاکی بادشاہ نے موجودہ حکومت کو فری ہینڈ دینے کا فیصلہ کیا تو لومڑ کا بول بالا ہونے کا امکان ہے، لومڑ کو بادشاہ شروع سے مشورہ دے رہا ہے کہ جنگل کو ترقی دینی ہے تو قریبی جنگل بنگال کے ماڈل پر چلا جائے جبکہ بارہ سنگھا سمجھتا ہے کنٹرول بادشاہ اور شیروں کا ہی رہنا چاہئے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لڑائی صرف لومڑ اور بارہ سنگھے کی نہیں یہ لڑائی مستقبل کی حکمت عملی کی ہے۔ خاکی شیروں نے فیصلہ یہ کرنا ہے کہ کیا جنگل اسی طرح چلتا رہے گا یا پھر ارد گرد کے جنگلوں کی طرح یہاں بھی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ جاڑے کے انتخابات کے بعد آنے والی حکومت اپنے فیصلوں کو ٹال رہی ہے انہیں بھی انتظار ہے کہ خاکی شیر کیا فیصلہ کرتے ہیں؟
بن مانس جنگل میں دبے دبے رہتے ہیں کیونکہ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ خاکی بادشاہ کو جنگل کی معیشت ٹھیک کرنی ہے اور جانوروں کو خوراک و علاج کی مناسب سہولت دینی ہے تو اس کیلئے جانوروں کے سیاسی حقوق بھی بحال کرنا ہونگے۔ سندربن کے جنگل کے جانوروں کو کئی عشروں سے آزادی سے کوسنے اور تنقید کرنے کی عادت پڑ چکی ہے اس عادت پر پابندیاں لگانا مسئلے کا حل نہیں ضرورت ہے کہ حکومتی جانور بھی اپنا بیانیہ زور وشور سے بلند کر کے یہ جنگ جیتیں۔ جنگل کا اصول ہے کہ سیاست کو طاقت سے نہیں دبایا جا سکتا سیاست کا مقابلہ سیاست سے ہی ہو سکتا ہے۔ کھلاڑی گھوڑے کو بھی سمجھنا چاہئے کہ شیروں سے مقابلہ کی وہ تاب نہیں لا سکتا۔ ان سے لڑ کر جیتنا مشکل ہے مذاکرات سے ان سے جگہ لی جاتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ کارکردگی سے اپنے آپ کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ رائے ونڈ کے گھوڑے برسراقتدار تو آ گئے ہیں لیکن آگے ان کا مطمح نظر کیا ہے؟ ان کا ہدف کیا ہے سیاست کا توڑ کیسے کریں گے کھلاڑی گھوڑے کو بند ہی رکھیں گے یا پھر کیا کریں گے؟ نیا ٹوڈر مل اشرفیاں تولے آئے گا ان اشرفیوں سے کونسے محل تعمیر ہونگے کہ جانور مستقبل میں پھر بھیک مانگنے پر مجبور ہوں۔ خاکی شیروں اور رائے ونڈ جنگل کے گھوڑوں کا اپنی منصوبہ بندی سے جانوروں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ جانور ہمیشہ جاہل اور لاعلم نہیں رکھے جا سکتے انہیں خواب دکھائیں گے تبھی سندربن کے جنگل کا ماحول بدلے گا۔
واپس کریں