عطاالحق قاسمی
وہ بھی کیسے اچھے دن تھے جب رمضان المبارک میں ملک بھر کے ہوٹل بند ہوتے تھے اور باہر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا کہ ’’رمضان المبارک کے احترام میں ہوٹل بند ہے، براہ کرم کھانا کھانے کے لئے پچھلے دروازے سے تشریف لائیں ‘‘۔ ان دنوں صورت حال مختلف ہے آپ کو شہر بھر کے ہوٹل بند ملیں گے اور اس طرح کی کوئی عبارت بھی تحریری صورت میں نہیں ملے گی کہ کھانا کھانے کے لئے پچھلے دروازے سے تشریف لائیں لیکن دنیا کے کام تو بہرحال چلتے رہتے ہیں چنانچہ اگر آپ کو کسی دکان کےتھڑے پر چار درویش پراسرار انداز میں بیٹھے نظر آئیں تو آپ بھی سرنیہوڑا کر ان کے قریب جا کھڑے ہوں اور انہیں مخاطب کرنے کی بجائے سامنے والی دیوار کو مخاطب کرکے مجذوبانہ انداز میں سر گوشی کریں ’’کج کھان نوں لبھ جائے گا‘‘ اور آپ کو مخاطب کیے بغیر کوئی آسمان کی طرف منہ کرکے کہے گا ’’کیہ چاہی دا جے‘‘ آپ اس فقیرانہ انداز میں جواب دیں جولبھ جائے، اس پر وہ مرد قلندر برابر میں واقع اپنے مکان میں جائے گا اور شامی کباب اور سلائس یا نان چنے پولی تھین کے بیگ میں بند آپ کو دائیں ہاتھ سے اس طرح پکڑائے گا کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہوگی۔ آپ بھی اس کو رقم کی ادائیگی اسی انداز میں کریں گے اور پھر کسی دیوار کی اوٹ میں یا جھاڑیوں کے پیچھے یا کسی نیم تاریک جگہ میں منہ کالا کریں گے مگر اس کیلئے پولیس سے بچنا یا اسے ساتھ ملانا ضروری ہے کیونکہ جرائم پیشہ لوگ ان کی نظروں سے بچ سکتے ہیں گناہ گار نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں کی مدد کو سیاست دان اور وڈیرے پہنچ جاتے ہیں اور یوں ان ’’شاہینوں‘‘ کے ہاتھ کچھ نہیں آتا جبکہ گناہ گاروں کی مدد کو خود گناہ گار بھی نہیں پہنچتے۔
تاہم گناہ گناروں کیلئے ان دنوں چند ’’مقامات آہ فغاں‘‘ اور بھی ہیں جن میں ریلوے اسٹیشن اور ہسپتالوں کی کینٹینیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان دنوں کسی ایک عزیز کو گاڑی پر سوار کرانے کے لئے آدھا محلہ ساتھ چل پڑتا ہے۔ اسی طرح مریضوں کی عیادت کا جذبہ بھی زوروں پر ہے یا کسی شہر سے کوئی مسافر آ جائے اور وہ کسی دوست سے ملنے اس کے گھر جانا چاہے تو کئی رستہ بتانے والے اس کے ساتھ چل پڑتے، غرضیکہ ان دنوں گناہ گاروں میں مشرقی اقدار بہت مقبول ہو رہی ہیں، ہم لوگ ایسے ہی واویلا کرتے رہتے ہیں کہ لوگوں کی آنکھ کا پانی مر گیا ہے۔
ابھی تک میں نے جن گناہ گاروں کا ذکر کیا ہے۔ یہ وہ گناہ گار ہیں جن پر پہلے سےخدا کی مار ہے ، یعنی ان کا تعلق غریب غربا سے ہے، آپ چاہیں تو انہیں ’’کمی کمین‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن گناہ گاروں کی ایک قسم اور بھی ہے جن کا شمار ’’شرفا‘‘ میں ہوتا ہے، میری مراد امیر لوگوں سے ہے ہمارے صاحبان اقتدار نے ملک میں دو طرح کے اسلام نافذ کئے ہوئے ہیں۔ ایک اسلام غربا کے لئے ہے اور ایک ان کے اپنے طبقے کے لئے۔ غریب گناہ گاروں کا احوال میں نے بیان کردیا ہے جبکہ بحمد اللہ امیر گناہ گاروں کے لئے اس قسم کا کوئی پرابلم نہیں، رمضان المبارک کے مہینے میں شہر کے فائیو اسٹار ہوٹل ان کے لئے کھلے ہیں، اب تو نہیں مگر کچھ عرصہ پہلےکی بات ہے کہ آپ کافی شاپ میں جائیں، ویٹر انہیں ایک فارم دے گا جس پر مریض، مسافر، غیر مسلم کے الفاظ درج ہوں گے۔ ان میں سے کسی ایک پر نشان لگا کر جو جی چاہے منگوائیں۔ کئی حقیقت پسند قسم کے گناہ گار تو مریض مسافر یا غیر مسلم کے سامنے نشان لگانے کی بجائے اپنی طرف سے لفظ ’’ہنگری‘‘ لکھتے تھے اور اس پر نشان لگا کر کام و دہن کی تواضع کافی اور برگر سے کرتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اصلی اسلام میں مریض، مسافر اور غیرمسلم سے طبقاتی امتیاز نہیں برتا جاتا جبکہ نظریہ ضرورت والے اسلام میں امیروں اور غریبوں کے لئے الگ الگ قوانین بنائے گئے ہیں۔ یہ وہ اسلام ہے جس میں محمود و ایاز مسجد کی ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن مسجد سے نکلنے کے بعد محمود ہاتھی پر سوار ہو جاتا ہے اور ایاز پیدل اپنے کوارٹر کی طرف چل پڑتا ہے۔
میرا ایک پرانا دوست ہے گزشتہ برس اس نے بتایا کہ وہ اعتکاف میں بیٹھنے جا رہا ہے مگر مسجد کے منتظمین کو اعتکاف میں بیٹھنے کے خواہشمند افراد کی درخواستیں اتنی زیادہ تعداد میں موصول ہوئی ہیں کہ وہ ایک ایک ’’خیمے‘‘ میں تین تین چار چار مومنین کو اکاموڈیٹ کر رہے ہیں، چنانچہ میرے ساتھ بھی میرے تین دوستوں کو شامل کر دیا ہے۔ یہ تینوں میرے محلے کے ہیں اور میرے بچپن کے دوست ہیں اور یوں مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ یہ کتنے پابند صوم و صلوٰۃ اور پاکیزہ کردار کے حامل نوجوان ہیں۔ میرے یہ دوست اور اس کے دوسرے ’’ہم اعتکاف‘‘ عید کا چاند نظر آنے کے بعد پھولوں میں لدے ہوئے مسجد سے نکلے اور میرا دوست اگلے روز عید ملنے مجھے آیا، آتے ہی پوچھا ’’اگلا ماہ رمضان کب شروع ہوگا‘‘ میں نے جواب دیا کہ اس کا جواب اگلے رویت ہلال کمیٹی کے ارکان ہی ماہ رمضان کے آغاز کا اعلان کریں گے‘‘۔ میں نے پوچھا ’’یار تمہیں اتنی جلدی کیا ہے، ابھی ابھی تو عبادات کا ثواب حاصل کرکے باہر آئے ہو‘‘۔ بولا ’’تم ٹھیک کہتے ہو مگر جو لطف چار دوستوں کے دن رات اکٹھا رہنے میں ہے وہ اب کہاں ملے گا، ہم چاروں کے والدین نے ہم پر پابندی لگائی ہوئی تھی کہ تمہاری صحبت ٹھیک نہیں ہے، لہٰذا ایک دوسرے سے نہیں ملو گے۔ اگر کبھی کوئی چغل خور گھر والوں کو بتا دیتا کہ یہ چاروں فلاں جگہ اکٹھے نظر آئے تھے تو ہماری کم بختی آ جاتی۔ الحمد للہ پورا عشرہ ہم دن رات اکٹھے رہے ہیں، جس سے ہمارے بارے میں ہمارے خاندان والوں کے تمام شکوک و شبہات دور ہوگئے ہیں اور اب وہ ہمیں صالحین میں شمار کرتے ہیں‘‘۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’تو کیا تم لوگ سارا دن گپیں ہی ہانکتے تھے‘‘ بولا ’’نہیں نماز بھی پڑھ لیتے تھے، کئی بار روزہ بھی رکھ لیتے تھے‘‘۔
یہ سن کر میں نے اسے کہا ’’تم ابھی اپنے گھر نہ جانا کیونکہ میں تمہارے والد سے ملنے جا رہا ہوں‘‘۔ یہ سن کر اس کا رنگ پیلا پڑ گیا، جس پر مجھے ترس آیا اور کہا ’’چلو اب آرام سے بیٹھو، میں آج نہیں کل تمہارے والد سے ملوں گا‘‘۔ اس کے بعد میں اس کا چین سے بیٹھنا دیکھتا رہا اور وہ مجھے التجا بھری نظروں سے دیکھتا رہا۔
واپس کریں