دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اپنے وقت کے باغی۔
خالد خان
خالد خان
ہم ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک پر اپنے وقت کے باغی اور انقلابی کے آبائی گاؤں میں داخل ہوئے تولوگ کھیتوں کے منڈیروں پر فارغ بیٹھے تھے اور کچھ جوان مویشی چراتے ہوئے پائے گئے،ایک پسماندہ گاؤں جس میں ایک انقلابی، مفکر اور معروف شاعر نے اپنی زیست کے پچپن کے ایام بسر کیے تھے۔اسی گاؤں کے افراد نے ایک اجنبی سکھ کو گھوڑے پر سوار گذرنے پر زدوکوب کیا اور اس گاؤں کے ایک نوجوان نے سکھ مسافر کا ساتھ دیا تو گاؤں والوں نے دونوں کی خوب خاطر مدارات کی اور وہ دونوں لوگوں کے غضب سے بچنے کیلئے بھاگ کر ایک گوردوارے میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
بعدازاں سکھ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گاؤں پر حملہ کیا اور حساب برابر کیا لیکن اس گاؤں کے مذکورہ جوان انا، ذات پات، جنس، زبان و نسل، دین ومذہب اور علاقائی تفریق سے متنفر ہوگئے اور وہ رسم و رواج اور قانون و ضوابط سے باغی ہوگئے، وہ پوری زندگی باغی رہے،جب وہ انتقال فرماگئے تو لوگ ان کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے آمادہ نہیں تھے، لوگوں نے ان کو اپنے قبرستان میں دفن کرنے نہیں دیا، ملنگوں، بھنگیوں اور ہیجڑوں نے انہیں ویرانے میں دفن کیا۔ یہ عظیم شخصیت پنجابی کے معروف شاعر بلھے شاہ تھے۔بلھے شاہ کے والد کا نام سخی شاہ محمد درویش تھا۔ آپ کا خاندانی سلسلہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملتا تھا، بلھے شاہ کے والد ایک متقی اور درویش تھے،
آپ بہاولپور کی تحصیل شجاع آباد کی سب تحصیل جلال پور پیروالا کے علاقے اُچ گیلانیاں میں رہتے تھے، وہ اُچ گیلانیاں میں مسجد امام تھے، سخی شاہ محمد درویش حالات سے تنگ ہوکر اُچ گیلانیاں سے ملک وال چلے گئے، وہاں آپ نے امام مسجد کے ساتھ ساتھ مذہبی اور روحانی سلسلہ شروع کیا۔ لاہور اور قصور کے درمیان "پانڈوکے " گاؤں ہے، ان کے ایک بڑے زمین دار پانڈو خاں کی بیٹی کی شادی ملک وال میں ہوئی تھی، پانڈو خاں کی ملک وال میں بلھے شاہ کے والد سید سخی شاہ محمد درویش سے ملاقات ہوئی،وہ ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے،بلھے شاہ کے والد سے گذارش کی کہ آپ " پانڈوکے" تشریف لائیں اور گاؤں کی مسجد میں امام بن جائیں،ان کی فرمائش پر بلھے شاہ کے والد ملک وال سے" پانڈوکے" تشریف لے گئے۔وہاں انھوں نے امام مسجد کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
۔بلھے شاہ3 مارچ1680 ء کو" اُچ گیلانیاں میں پیدا ہوئے لیکن بعض روایات کے مطابق " پانڈو کے" میں پیدا ہوئے تھے، واضح ہوکہ ان کی تاریخ پیدائش اور وفات کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔بلھے شاہ کی والدہ کا نام فاطمہ بی بی تھا،ان کی دو بہنیں صغراں بی بی اور سکینہ بی بی تھیں لیکن بہنوں کی شادی نہیں ہوئی تھی۔بلھے شاہ کا اصل نام سیدعبداللہ شاہ تھا، انھوں نے ابتدائی تعلیم "پانڈوکے " میں حاصل کی، وہ دن کے وقت بھینسیں چراتے تھے۔ "پانڈوکے" لاہور سے فیروز پورروڈ پر28کلومیٹر دائیں جانب پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں ہے۔ "پانڈوکے " میں بلھے شاہ کے والد کا مزار ہے،آج کل میانوالی کے معروف و ممتاز ٹیچر طاہر اقبال خٹک" پنڈوکے "کے قریب نواں پینڈ پانڈو کی سکول میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں،یہ ان لوگوں کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے بچوں کو جفاکش اور محنتی ٹیچر ملے ہیں۔بلھے شاہ تعلیم کے حصول کیلئے قصور چلے گئے، جہاں حافظ غلام مرتضیٰ سے تعلیم حاصل کی، وارث شاہ بھی حافظ غلام مرتضیٰ کے شاگرد تھے۔ حافظ غلام مرتضیٰ نے اپنے شاگردوں کے بارے میں کہا تھاکہ"مجھے دو عجیب شاگرد ملے ہیں،ان میں ایک بلھے شاہ ہے،جس نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی ہاتھ میں پکڑلی، دوسرا وارث شاہ جو عالم بن کر ہیر رانجھا کے گیت گانے لگا۔
بلھے شاہ نے اپنی شاعری میں بلھا تخلص کے طور استعمال کیا، اس سے عیاں ہوتا ہے کہ شاید انھوں نے خود اپنے لئے بلھے شاہ کانام پسند کیا ہو۔بلھا یعنی بھولا ہوا،انا کی نفی کرکے اپنی ذات کو بھول چکا ہو۔آ پ کو انسانیت، عشق اور آزادی سے محبت تھی۔ بلھے شاہ مُلاکے تصورِ دین سے سخت نفرت کرتے تھے۔ بلھے شاہ اپنے عہد کے مولویوں اورمفتیوں سے بیزار تھے، اس لئے ہر وہ کام کرتے تھے،جس سے لوگ نفرت کرتے تھے۔حضرت بلھے شاہ نے قصور کی ایک طوائف سے رقص سیکھا اور گوا لیار کی ایک طوائف سے رقص کی تربیت لی۔وہ ہیجڑوں کے ساتھ رقص کیا کرتے تھے،لاہور میں اُچی مسجد کے باہر حضرت شاہ عنایت کے انتظار میں عورتوں کے کپڑے پہن کر رقص کرتے تھے،بلھے شاہ نے گدھے پال رکھے تھے اور پھر گدھے پر سوار ہوکرگاؤں میں پھرتے تھے۔حضرت بلھے شاہ امام مسجد کے بیٹے تھے،لوگ ان سے بہتر رویے کی توقع رکھتے تھے۔ بلھے شاہ خود سید زادے تھے لیکن آرائیں قوم کے شاہ عنایت کے ہاتھ پر بیعت کی، بلھے شاہ فرقوں اور ذات پات کے خلاف تھے۔
جب22 اگست 1757ء میں بلھے شاہ کا انتقال ہوا تو مولویوں نے اُن کا جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا اور لوگوں نے اُن کو اپنے قبرستان میں دفن کرنے نہیں دیا،پھر بلھے شاہ کو بھنگیوں، ملنگوں اور ہیجڑوں نے شہر سے دو کلومیٹر دور دفن کیا۔جس شخص کی لوگ نماز جنازہ پڑھنے کے لئے آمادہ نہیں تھے ا ور اُن کو اپنے قبرستان میں دفن کرنے نہیں دیا لیکن آج لوگ ان کے پہلو اور ان کے قبرستان میں دفن ہونا اعزاز سمجھتے ہیں۔وقت نے ثابت کیا کہ بلھے شاہ پنجابی کے معروف شاعر، فلسفی اور درویش تھے۔بلھے شاہ انسان دوست، ہمدرد اور مساوات کے قائل تھے، آپ ذات پات، جنس،رنگ و نسل اوردین و مذہب پر انسانی تفریق کوغلط اور بُرا سمجھتے تھے۔آپ اپنے وقت کے باغی اور انقلابی تھے۔آپ نے تعصب پسند، مغرور اور اقتدار پسند افراد کیلئے کہا تھاکہ
"نہ کر بندیا میری میری،
نہ تیری، نہ میری
چار دناں دا میلہ،
دنیا فیر مٹی دی ڈھیری"
واپس کریں